• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتوار کی رات مینار پاکستان کے سایہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے ’’قومی دھارے‘‘ میں یہ کہہ کر شامل ہونے کا اعلان کیا ہے کہ انتخابات جیسے بھی ہوں عوامی تحریک اس میں بھرپور حصہ لے گی۔ ’’ہم میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے ذریعے انقلاب برپا کیا جائے گا اور یہ بھی واضح کیا کہ ملک میں بھٹو ازم یا کوئی اور ازم نہیں صرف اور صرف قائد اعظم ؒ ازم چلے گا۔ عمران خان اور علامہ طاہر القادری 14؍ اگست کو بڑی شان سے اسلام آباد روانہ ہوئے کہ ہنسوں کی یہ جوڑی قلعہ اسلام آباد فتح کر لے گی۔ اس دوران ایک اچھا کام یہ ہوا کہ عمران خان اور علامہ صاحب سیاسی رشتہ میں منسلک ہو کر ’’کزن‘‘ بن گئے ہیں۔ علامہ صاحب عالم دین ہیں اس لئے یہ رشتہ پکا سمجھیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے 18اکتوبر کو سانحہ کارساز کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جو ٹھاٹھ دار’’عوامی طاقت‘‘ کا مظاہرہ کیا ، جواں سال بلاول بھٹو زرداری نے بڑی جذباتی تقریر کی اور نوید دی کہ بھٹو ازم میں تمام مسائل و مشکلات کا حل ہے اوران کی پارٹی نانا کے مشن کو پورا کرے گی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ بھٹو ازم کس چیز کا نام ہے۔ اگرچہ آصف علی زرداری نے مفاہمت کا پیغام دیا لیکن بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ہی نہیں مسلم لیگ ن پر بھی تنقید کے تیر برسائے اور عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا ارشاد تھا کہ شیر کا شکار تیر سے ہو گا بلے سے نہیں اور شکاری آصف علی زرداری ہوں گے۔ ’’شکاری زرداری‘‘ کے نعرے بھی لگائے گئے اور یہ اعلان کیا کہ 30؍ نومبر کو لاہور میں یوم تاسیس کے موقع پر ’’شیر شکار‘‘ کا پروگرام طے کیا جائے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ بلال زرداری ’’سیاسی لنگوٹا‘‘ کس کر چومکھی لڑنے کے لئے اکھاڑے میں اترے ہیں۔ جلد ہی آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ اس پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے بھی کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن ایم کیو ایم نہ جانے کیوں بپھر گئی ہے اور کہا کہ ’’قائد الطاف حسین بھائی کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ رابطہ کمیٹی نے سندھ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ نہ صرف سندھ بلکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے خلاف بھی یہ کہہ کر قرارداد پیش کر دی ہے کہ انہیں قائد حزب اختلاف کے عہدہ سے ہٹایا جائے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس سے قبل تین بار ’’سیاسی دنگل‘‘ لگ چکا ہے۔
ایک بار وہ مسلم لیگ ن اور ایک بار محترمہ بے نظیر کے بھی اتحادی رہے ہیں اور تو اور جنرل پرویز مشرف کے تو دست و بازو تھے اور بعد میں رحمٰن ملک کی لابنگ سے الطاف حسین راضی ہو گئے تھے۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اس علیحدگی کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ لندن کی بڑی شاہراہ پر ٹریفک سنگل کی سرخ و سبز ہونے والی بتی کچھ اور راستہ دے رہی ہے کہ نہ صرف الطاف حسین اپنے فیصلے پر اڑ گئے ہیں بلکہ الگ صوبہ کا بھی مطالبہ کر دیا ہے جبکہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری بھی ملک میں نئے انتظامی یونٹ بنانے کی بات کر رہے ہیں۔
پنجاب میں سات صوبے بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان چاروں صوبوں خصوصاً سندھ میں عوامی تائید حاصل کرنے کے لئے اس اہم مسئلہ پر ابھی خاموش ہیں لیکن ملتان میں اشارتاً سرائیکی صوبہ کی حمایت کی ہے۔ اگرچہ یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے زرداری دور میں سرائیکی صوبہ اور بہاولپور ریاست کی بحالی کی نہ صرف بات کی گئی تھی بلکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس بارے میں قرارداد بھی منظور کی تھی۔ ہزارہ صوبہ کی مضبوط تحریک موجود ہے لیکن اس وقت جب ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کا نعرہ دے کر از سر نو انتخابات کے لئے پریشر ڈالا جا رہا ہے اور حکومت اور ان کے درمیان ’’بیانات کا میلہ ‘‘ سجا ہوا ہے اس موقع پر ’’نئے صوبوں‘‘ کا مطالبہ سوالیہ نشان بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ جب یہ نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو نظریں اوپر اٹھ جاتی ہیں کہ کہیں کوئی اور تو نہیں جو ایسے اشارے کروا رہا ہے یا کسی اور سازش کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ صرف حوالے کے لئے اتنا عرض ہے کہ ضیاء دور میں ظفر احمد انصاری رپورٹ میں نئے صوبے بنانے کی تجویز شامل تھی اور ان کی تعداد 12تک تھی۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا شمار پیپلز پارٹی میں سنجیدہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے ابھی تک دو ٹوک الفاظ میں مڈٹرم انتخابات کی بات نہیں کی لیکن گزشتہ روز ملتان ایئرپورٹ پر جناب گیلانی کا کہنا تھا کہ مڈٹرم الیکشن کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ منظور وٹو تو کھلے عام موجودہ حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کہیں دور بہت دور ایسی سرگوشیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ درست کہ جمہوری ادارے مضبوط ہیں اور جمہوریت کو ظاہراً کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن عوام کے مسائل تو موجود ہیں ان کا تو تدارک کیا جانا چاہئے اور یہ ذمہ داری حکمرانوں کی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ’’ریلیف پیکیج‘‘ کا اعلان کریں۔ 2008میں برسر اقتدار آتے ہی قومی اسمبلی میں افتتاحی خطاب میں وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے ریلیف پیکیج کے اعلان کا وعدہ کیا تھا۔ ان کا سارا دور گزر گیا اور اب مسلم لیگ ن کی عوامی حکومت ہے لیکن عوام کسی بھی بڑے ریلیف سے محروم ہیں۔
لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لئے بیانات تو روز آتے ہیں لیکن عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ اب تو بجلی کے بل بھی عذاب بن گئے ہیں۔ اگر جمہوریت کا دعویٰ ہے تو جمہور کو کچھ تو دینا ہو گا۔ 1942میں حضرت قائد اعظم علیہ الرحمۃ نے فرمایا تھا (جس کا مفہوم کچھ یوں تھا ) کہ ’’پاکستان جاگیرداروں، زمینداروں، سرمایہ داروں کے لئے نہیں بنایا جا رہا ہے یہ غریب عوام، کسانوں، مزدوروں کو ان کے حقوق دے گا۔ یہ ان کا ملک ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایسا پاکستان مجھے قبول نہیں ہو گا۔‘‘ صرف جمہوریت، آئین، قانون کا ذکر کرنے سے بات نہیں بنے گی آگے بڑھ کر جمہوری اقدار کو نافذ کرنا ہو گا اور آخر میں نوح ناروی کا ایک شعر سب کی نذر
کہا اونٹ پر بیٹھوں کہا اونٹ پر بیٹھو
کہاں کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہو گا
تو صاحبو! کوہان تو ہو گا اب بھی وقت ہے، مہلت ہے کہ سیاسی دھماچوکڑی ختم کی جائے اور ملک کی معاشی ترقی اور گڈ گورننس کے لئے ایک ’’گرینڈ ایجنڈا‘‘ پر اکٹھے ہو جائیں۔ اس میں سب کا بھلا ہے کہ اونٹ کی گھنٹیوں کی آواز نزدیک سے نزدیک تر ہوتی جا رہی ہے!!
تازہ ترین