• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ سب کی طرح عیدالاضحی کے موقع پر میں بھی طرح طرح کے جانوروں کی قربانی دیتا ہوں۔ مثلاً بکرے، دنبے، بیل،سانڈ، اونٹ وغیرہ۔ میرا اکلوتا اور یکتا بیٹا جو بچپن سے برگر کھا کر جواں ہوا ہے، بیل، سانڈ اور اونٹ کا گوشت پسند نہیں کرتا۔ وہ چکن پسند کرتا ہے۔ میں اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے مرغوں کی قربانی دیتا ہوں۔ اپنے ہم پلہ بااثر شخصیات کی خاطر تواضح کیلئے میں ہرنوں کی قربانی دیتا ہوں۔ سب کو ایک ایک سالم ہرن مع سینگوں کے گھر بھجوا دیتا ہوں۔ یہ میرا دستور ہے میں نے اپنے دستور میں آج تک ترمیم نہیں کی۔ حتیٰ کہ جب میں کبڑا ہوتا تھا تب بھی میں نے اپنے دستور میں ترمیم نہیں کی تھی۔ بااثر لوگ ہمیشہ بااثر لوگوں سے تعلقات استوار رکھتے ہیں۔ اس لئے آخری ہچکی لینے تک بااثر لوگ بااثر رہتے ہیں۔ بے اثر لوگوں کو میری بات سے سبق سیکھنا چاہئے۔ بے اثر لوگ زندگی بھر رسوا ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے اشارے پر رکشا تک نہیں رکتا۔ اس کے برعکس بااثر لوگوں کے اشارے پر کھٹی کڑی میں ابال آسکتا ہے ۔ بلوں سے چوہے باہر آسکتے ہیں۔ گندے تالابوں کے مینڈک ٹرانے لگتے ہیں۔ بے اثر لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی میں ووٹ دینا اہم نہیں ہوتا۔ ووٹ لینا اہم ہوتا ہے۔ ووٹ دے کر آپ اسمبلی میں براجمان نہیں ہو سکتے۔ صرف ووٹ لیکر آپ اسمبلی کی نرم اور گرم سیٹ پر بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بااثر لوگوں کے نصیب میں لکھا ہوتا ہے۔ یہ تو تھی میری پرخلوص نصیحت بےاثر لوگوں کیلئے۔ اصل میں بالم کو یہ قصہ سنانے سے میرا مقصد تھا آپ سے اپنی حالیہ حیران کن بپتا کا ذکر کرنا۔
یہ کہہ کر میں گنہگار نہیں ہونا چاہتا کہ میں جن بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں تو چڑیلوں پر بھی یقین رکھتا ہوں۔ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ کون بد بخت ہو گا جسے چڑیلیں اچھی نہیں لگتی ہونگی۔ چڑیلیں مجھے اس لئے بھی اچھی لگتی ہیں کہ چڑیلیں بوڑھی نہیں ہوتیں۔ جن بھوتوں کے حوالے سے میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے جن بھوتوں سے ڈر نہیں لگتا۔ آپ بس باورکر لیجئے کہ بااثر لوگ جنوں اور بھوتوں سے نہیں ڈرتے۔ میں نے تو کئی سیانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جن اور بھوتوں کو بااثر لوگوں سے ڈر لگتا ہے۔ بہر حال ، وہ میری زندگی کا حیرت انگیز اور مافوق الفطرت تجربہ تھا آپ بھی سن لیجئے۔ میرے فارم ہائوس کے پچھواڑے میں مختلف اقسام کے جانور منہ لٹکائے کھڑے تھے۔ خاص طورپر بکروں کو پتہ چل چکا تھا کہ ان کی ماں کی خیر منانے سے بکروں کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ صبح ان کے گلے پر چھری پھرنے والی ہے۔ تب میں نے آدھی رات کے وقت کسی کو بولتے ہوئے سنا۔ ’’قیامت کے روز اس بااثر چھچھوندر کو میں پل صراط کے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں پھینک دوں گا‘‘
میرے بیڈ روم کی ایک کھڑکی فارم ہائوس کے پچھواڑے کی طرف کھلتی ہے۔ وہی جملہ میں نے دوبارہ سنا ’’قیامت کے روز اس بااثر چھچھوندر کو میں پل صراط کے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں پھینک دوں گا‘‘۔
فارم ہائوسز میں رہنے والے ہم بااثر ہمسائے ایک دوسرے کی پیٹھ کھجاتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بیہودہ جملہ میں نے کس کے منہ سے سنا تھا؟ میں پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور کھڑکی سے باہر اپنے فارم ہائوس کے پچھواڑے کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک موٹا تازہ بکرا عین کھڑکی کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور مجھے گھورنے لگا۔ میں نے بکرے کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دیں۔ اسمبلی اجلاس کے دوران میں جب بھی اسپیکر کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال دیتا تھا، تب خواتین اسپیکروں کو چھوڑیں، مچھندر اور دادا قسم کے اسپیکر بھی اپنی آنکھیں جھکا دیتے تھے۔ یہ کس قسم کا بدبخت بکرا تھا کہ آنکھیں نیچی کرنے کے بجائے لگاتار میری طرف دیکھ رہا تھا! میں چونکا جب لحیم شحیم بکرے نے اپنا منہ کھولا اور کہا ’’ اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تو مجھے قربان تو کررہا ہے،مگر یاد رکھ ’’چھچھوندر قیامت کے روز میں تجھے پل صراط سے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں پھینک دوں گا‘‘
’’تو نے مجھےچھچھوندر کہا ہے۔ اسلئے تیرے گلے پر چھری میں خود پھیروں گا۔‘‘ میری بات کا اثر مشٹنڈے بکرے پرنہیں ہوا۔ وہ لگا تار میری طرف دیکھتا رہا۔ میں نے کہا۔ ’’میری بات غور سے سن۔ میں نے اونٹ کی قربانی بھی دی ہے۔ میں اونٹ پر سوار ہو کرپل صراط پار کروں گا۔ ضرورت پڑنے پر علما سے فتویٰ لیکر میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی قربانی دوں گا اور قیامت کے روز گھوڑے پر سوار ہو کر پل صراط پار کروں گا ۔ اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہوجائوں گا‘‘۔
بکرے نے کھڑکی کو ٹکرمارتے ہوئے کہا۔’’کوئی باغیرت جانور، پھر چاہے وہ گھوڑا ہو یا ہاتھی تجھ جیسے پاپی، راشی، خونی، عیاش اور املاک کے انبار لگانے والے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر پل صراط پار کرانے سے انکار کردے گا۔‘‘
میں نے بدن میں جھرجھری محسوس کی۔ پلنگ سے اٹھ کر میں کھڑکی کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے غور سے بکرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’میری نجی زندگی کے بارے میں تجھے معلومات کس نے دی ہے؟‘‘
کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بکرے نے کہا ’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ فرانس میں تیری املاک کے سروے نمبرکیا ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سوئٹزر لینڈ، سویڈن اور برطانیہ کے بینکوں میں تیرے کتنے اکائونٹ ہیں؟ ان اکائونٹس کے نمبر کیا ہیں ان اکائونٹس میں کتنے ملین بلین اور ٹرلین ڈالر، پائونڈ اور یورو پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
میں کھڑکی سے دو چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’تو بکرانہیں ہے۔ بکرے کے روپ میں تو جن ہے۔ ورنہ میرے بارے میں اس قدر خفیہ معلومات تیری دسترس میں نہیں ہوتی۔‘‘
بکرے نے کہا۔ ’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تو ہراس شخص کو قتل کروا دیتا ہے جس کے پاس تیرے راز ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو جن ہے یا بکرا، میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ میں نے دوڑ کرالماری کھولی۔ ایک بندوق نکال لی اور دوڑتے ہوئے بیڈروم میں داخل ہوا۔ بندوق تان کر کھڑکی کے قریب پہنچا۔ کھڑکی کے باہر کوئی نہیں تھا۔ باہرنکل کر میں نے فارم ہائوس کا پچھواڑا چھان مارا۔ مجھے مشٹنڈا بکرا نظر نہیں آیا! کون تھا وہ؟
تازہ ترین