• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کے اپنے ہی رنگ ہیں اور ترقی پذیر و پسماندہ ممالک میں تو اس کی چال ڈھال ہی نرالی ہوتی ہے۔ جمہور کے نام پر ’’سر پر تاج‘‘ سجا ہوتا ہے اندرا گاندھی کی بڑی بہو مانیگا گاندھی کا اپنے شوہر سنجے گاندھی کی موت کے بعد ساس اور دیور (راجیو گاندھی) سے اختلافات ہو گئے جس کی وجہ سے وہ کانگریس کے مقابلے میں جنتا پارٹی سے منسلک ہو گئی تھی۔ دہلی میں ایک بار ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ راجیو گاندھی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ میڈیا سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ راجیو جو اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھے جب دارالحکومت میں ہوں تو روز رات کسی بڑے اخبار کے ایڈیٹر کو ڈنر پر مدعو کرتے ہیں اور مقصد صرف گپ شپ ہوتا ہے اس طرح انہوں نے تھوڑے عرصے میں میڈیا میں اچھی لابنگ پیدا کر لی ہے اور یہ کہ حکومت کی غلطیاں اپوزیشن کا کریڈٹ اور اپوزیشن کے غلط اقدام حکومت کا کریڈٹ ہوتے ہیں تاہم سیاست کا کوئی سرا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی بات حرف آخر ہوتی ہے۔ آج کے دوست کل کے مخالف اور آج کی اپوزیشن کل کی کولیشن پارٹنر ہوتی ہے۔ مولانا ابوالکلام کا قول ہے اور کیا خوب ہے کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘‘ یہ اڑتی پتنگ کی طرح ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو کاٹتی رہتی ہیں تاہم کچھ لکھے اور ان لکھے قاعدے اور روایات ہیں جن پر سیاست کی عمارت قائم کی جاتی ہے تاہم اس میں ارکان کی خرید و فروخت کی ممانعت ہے اس سے جمہوری سسٹم کمزور ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک دو نہیں چار بار فوجی حکمرانی رہی جس سے جمہوری اقدار روایات الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ 1985میں جب غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے کہ جمہوریت کی کسی بھی قسم میں اس کا جواز نہیں اور نہ ہی ’’غیر جماعتی‘‘ انتخابات ہوتے ہیں لیکن ایسے ’’انوکھے الیکشن‘‘ ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اور اس کے بعد اقتدار کو قائم رکھنے اور طول دینے کے لئے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی گئی کہ اس کی جمہوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ایوب دور میں وزیر قانون پرنسپل ابراہیم تھے جنہوں نے آئین کے مسئلہ پر اختلاف کیا اور وزارت چھوڑ دی دوسرے مولانا مفتی محمود تھے جنہوں نے بلوچستان آپریشن کی مخالفت کی اور صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا جبکہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی کہ وہ استعفیٰ نہ دیں۔ انہیں مفتی صاحب قبلہ کا بڑا احترام تھا۔ مگر مولانا مفتی محمود نے اصولوں پر سودا نہیں کیا اور پاکستانی سیاست میں بڑا مقام پیدا کیا۔ ابھی تو تحریک انصاف کی جانب سے صرف الزام لگا ہے کہ ان کے ارکان قومی اسمبلی کی بولی لگائی جا رہی ہے۔ جس میں خواجہ سعد رفیق نے ’’بڑے غرور‘‘ سے ارشاد کیا ہے کہ جو ایسا کرے اس پر خدا کی لعنت ہو اور جو الزام لگائے اس پر بھی۔ تاہم اس سچ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ’’چھانگا مانگا‘‘ اور ایبٹ آباد میں ’’بازار مصر‘‘ سجائے گئے اور ارکان کی قیمت لگی وفا داریاں خریدی گئیں۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک طرف نوجوان ارکان ہیں اور دوسری طرف ’’امید و آس‘‘ کی روشنی نظر آ رہی ہے ایسا اندھیرا ہے کہ دوسرا ہاتھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ورنہ اقتدار کے سمندر میں کودنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ جو کل جنرل مشرف کے وزیر، مشیر تھے آج ن لیگ کے برگد تلے پناہ گزیں ہیں اور پاکستان میں سیاسی ’’اچھل کود‘‘ کا یہ کھیل نیا نہیں دو عظیم رہنمائوں کے رخصت ہونے کے بعد جو سیاستدانوں کے نقاب اوڑھ کر مسند اقتدار پر آئے ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ’’دیوی اقتدار‘‘ کے پجاری تھے۔ عوام کا نام منہ کی چاشنی بدلنے کے لئے لیا گیا۔ الیکشن تو ہوئے مگر فیصلے حکمرانوں کی مرضی سے کئے گئے اور اس کے لئے قاعدے قانون بھی اس طرح بنائے گئے کہ ’’اقتدار کے بھاگ لگے رہین‘‘ 1956میں جب صوبہ مغربی پاکستان بنایا گیا تو اس وقت چند سیاستدانوں کی ضد اور صدر مملکت کی خواہش پر راتوں رات ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کی گئی اور برسراقتدار مسلم لیگ کے ارکان ’’موسمی پرندوں‘‘ کی طرح اس جماعت کی چھتری پر اترتے رہے۔ سب نے دیکھا کہ مغربی پاکستان اسمبلی کی سیڑھیوں پر ارکان کو پرمٹ اور پلاٹ ہی نہیں وزارتیں بھی ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں۔ یقین کیجئے کہ جب سرحد کے مرد آہن کو مرکز میں وزیر بنایا گیا تو پہلے انہوں نے انکار کر دیا اور جب دبائو ڈالا گیا تو اس شرط پر آمادہ ہوئے کہ ان کا نامزد شخص صوبہ کا وزیر اعلیٰ ہو گا اور انہوں نے سرحد کے آئی جی پولیس کو نامزد کر دیا اس طرح عبدالرشید نامی پولیس افسر وزیر اعلیٰ بن گیا۔ کسی قاعدے قانون کا خیال نہیں رکھا گیا اور ’’مرد آہن‘‘ کا ذاتی ملازم ان کی کابینہ میں وزیر بنا۔ جب ری پبلکن پارٹی بنائی گئی تو صوبہ کے گورنر نواب مشتاق گورمانی‘‘ کھلے عام‘‘ لابنگ کرتے رہے ۔ اس دور میں بڑے زور کی ’’سیاسی بادشاہتیں‘‘ قائم تھیں۔ سندھ میں محمد ایوب کھوڑو کا راج تھا۔ سرحد میں خان عبدالقیوم خان اتنے طاقتور تھے کہ ہر مخالف کو ’’صوبہ بدر‘‘ کر دیا۔ ان میں قائداعظم کے متحدساتھی اور سرحد ریفرنڈم کے قائد پیر صاحب مانکی شریف بھی شامل تھے اور پنجاب میں میاں ممتاز دولتانہ نے ہر حریف کو مسلم لیگ سے فارغ کر دیا۔ آج یہ الزام لگایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کو خریدنے کی کوششیں کی جا رہی ہے تو یہ معمولی بات ہے اس ملک میں تو پوری کی پوری اسمبلی کی بولی لگی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تو پیپلز پارٹی کے ان ارکان کو وزارت کی ہڈی ڈال کر توڑ لیا تھا جو محترمہ بی بی شہید کے قریبی ساتھی کہلاتے تھے۔ مخدوم فیصل صالح حیات تو لاہور میں بی بی شہید کے میزبان بھی ہوا کرتے تھے۔
مرحوم رائو سکندر کا بھی یہی مقام تھا۔ آفتاب شیر پائو تو پٹڑی سے ایسے اترے کہ پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا ہی بنا لیا۔ مسلم لیگ قائداعظم بنی اور اعجاز الحق نے بھی الگ شہید ضیاء گروپ قائم کر لیا۔ منظور وٹو نے بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کر لی جبکہ یہ سب مسلم لیگی تھے اور میاں نواز شریف کے وفا داروں میں شمار ہوتے تھے کہ ہمارے ملک کی سیاست کی ریت ہی نرالی ہے۔ یہ عوام کے لئے نہیں اقتدار کے لئے ہوتی ہے یہی وجہ ہے جو بھی برسراقتدر آیا ہے پہلے دن سے ہی اپنی کرسی مضبوط کرنے میں جت گیا کسی نے بھی عوام کے مصائب و مسائل کے تدارک کے لئے اقدام نہیں کئے۔ سب اپنے وعدوں کو بھول گئے۔ عظمتوں کا یہ عالم ہے کہ ایک تقریب میں فرانسس جولیس کا محترمہ بی بی شہید سے آمنا سامنا ہو گیا تو محترمہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ جناب جولیس کا جواب تھا کہ ’’میں آپ کا وزیر ہوں۔‘‘ میاں نواز شریف کے بارے میں بھی یہی گلہ کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ ملاقات کا وقت نہیں دیتے۔ یہ افواہ بھی رہی کہ ایک وزیراعظم ایسا بھی تھا جس سے ملاقات کرانے کا نذرانہ لیا جاتا تھا۔ ایک آدھ چھوٹی جماعتیں ایسی تھیں جن کا یہ فرمان بہت مشہور ہوا کہ ’’ہم تو حکومت کے ساتھ مخلص اور وفا دار ہیں۔ بے وفا تو حکومتیں ہیں جو بدلتی رہتی ہیں۔‘‘ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے اب یہ غیر جمہوری غیر اخلاقی روش تبدیل کرنی ہو گی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ آج جن ارکان کو وزارت اور بھاری رقم دے کر حامی بنایا جا رہا ہے کل کوئی اس سے زیادہ مراعات دے گا تو وہ ادھر پلٹ جائیں گے۔ جمہوری نظام میں ارکان کی خرید و فروخت کا کوئی تصور نہیں ہے اور یہ وقت ہے کہ جمہوری اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔ ملک اس وقت اندرونی ہی نہیں بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے تلخی میں اضافہ ہو گا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’ان دیکھے ہاتھ‘‘ متحرک ہیں۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ آئندہ پانچ سال میں لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی بلکہ ایسا کچھ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’آئین چپلی کباب نہیں کہ لوگ اسے کھائیں‘‘ ۔
تازہ ترین