• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان بڑی عجیب شے ہے، اسے محبت اور اپنائیت کے ساتھ ساتھ گرد و پیش سے اپنے ہونے کی گواہی بھی درکار ہوتی ہے۔ وہ زمانے اور مخالفین کی تمام تلخیاں برداشت کر سکتا ہے مگر جب اس کے ہونے کے احساس کو مجروح کیا جائے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ کسی کو سب سے بڑی اذیت دینا مقصود ہو تو اسے نظر انداز کر دیا جائے، نظر انداز کرنا شاید دشمنی سے بھی زیادہ کربناک ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لوگ دشمنی برداشت کر لیتے ہیں نظر انداز ہونا نہیں۔ دو متحارب گروپ ایک دوسرے کا تذکرہ کر کے ایک دوسرے کے احساس کی تشفی کرتے رہتے ہیں۔ ادبی حوالے سے مختلف نظریہ ٔ فکر سے وابستہ بڑی شخصیات ہمیشہ دوسرے نقطہ ٔ نظر کی حامل ہستیوں کی خبر رکھتی رہی ہیں۔ بھلے وہ ان کی کسی تخلیق پر تنقید کر کے یا ان کے کسی عمل کا تذکرہ کر کے۔ تعریف اور تنقید کرنا دراصل موجودگی کو تسلیم کرنے اور ان کی جداگانہ حیثیت کا اعتراف کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی بھی فعل سے تعلق نہ رکھنا نظر اندازی کی وہ شکل ہے جو ناپسندیدگی اور حقارت سے جڑی ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں خود کو منوانے والے انوکھے ڈرامے رچاتے ہیں۔ جس طرح گزشتہ کئی مہینوں سے مختلف سماجی اور سیاسی شخصیات ایک عجیب کرب کے عالم سے گزر رہی ہیں اور اپنی زخمی انا کو بہلانے کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگائے بیٹھی ہیں۔ پھر وہ قوتیں جن کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہ ہو کو نظر انداز کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ حکومت کا کام سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے کیوں کہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، صدر اور دیگر اعلیٰ عہدے داران کے انتخاب کے بعد وہ کسی جماعت کے سربراہ نہیں رہتے بلکہ پورے ملک کے عوام کے نمائندے بن جاتے ہیں اور پورے ملک میں صرف ایک جماعت نہیں ہوتی بلکہ تلخ و شیریں ذائقے والی بہت سی دیگر آوازیں اور سرگوشیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان آوازوں کو سنی ان سنی نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ یہ آوازیں عوام کی شکایات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ انہیں سنی ان سنی کرنا اس طرزِ عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ بولتے رہو نہ ہم سنیں گے نہ جواب دیں گے۔ وزیر اعظم صاحب کی بات کریں تو برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ان کے جانثاروں نے ہمیشہ انہیں عوام و خواص سے دور رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ تجارتی، سماجی اور سیاسی شخصیات کو اک ملاقات کے لئے مہینوں انتظار کے بعد ٹکا جواب ملتا ہے تو وہ سیدھے کسی کنٹینر کا رُخ کرتے ہیں اور کنٹینر والے کو امداد کے ساتھ ثابت قدم رہنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ غور کیا جائے تو منتخب وزیر اعظم ایک عوامی نمائندہ ہوتا ہے بادشاہ نہیں جو خاص موقعوں پر اپنی جھلک دکھا کر رعایا کو مسرور کرے۔ مسائل کے انبار میں جکڑے لوگوں کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ دیدار کو ترسیں یا ملاقات کو اعزاز سمجھیں۔ انہیں تو تمام سنجیدہ معاملات میں اپنے ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کی سوچ اور تعاون دکھائی دینا چاہئے جو ان کے مورال کو بلند کر سکے۔
یوں تو حکومت ِ وقت سے ان کے بہت سے دیرینہ دوست احباب خفا اور شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔ درد مند کالم نگاروں نے بارہا اس حوالے سے حکومتی عہدے داران کو خبردار کرتے ہوئے غلطی کی تصحیح کرنے کی ترغیب دی مگر معاملہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر آ گیا کہ سردار ذوالفقار علی کھوسہ جیسی شخصیت جو نفاست اور شائستگی کے حوالے سے ایک معتبر سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں کو سر عام ایسی باتیں کہنی پڑیں جو ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں کیوں کہ نعرہ بازی، الزام تراشی اور دیگر ہتھکنڈوں سے آج تک انہوں نے نہ صرف اپنا دامن بچائے رکھا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو بھی ناپسند کرتے رہے ہیں۔
ان کی ناراضگی کے حوالے سے پچھلے کچھ دنوں سے خبریں گردش کر رہی تھیں اور حکومتی حوالے سے اس کے سد باب کا کوئی فرمان بھی جاری نہیں ہوا تھا جس کے باعث سنجیدہ لوگ متفکر تھے کہ کیوں کہ ذوالفقار علی کھوسہ جیسی ہستیاں کسی بھی پارٹی کا اثاثہ ہوتی ہیں، انہوں نے ایک طویل عرصہ مسلم لیگ سے وابستہ رہ کر سیاسی جدوجہد کی ہے اس لئے ان کی کسی کڑی بات کو بھی دل پر لینے کی بجائے ان کے خدشات دور کر کے انہیں دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھلا ہو حامد میر کا جنہوں نے وقت کی ضرورت اور نزاکت کے باعث اپنے پروگرام کے ذریعے حکومت ِ وقت کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ سردار صاحب کو ناراض نہ ہونے دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سردار صاحب کے صاحبزادوں کے حوالے سے حکومتی تحفظات سے بھی انہیں آگاہ کر کے اپنے طور پر درمیانی رستہ اختیار کرنے کی صلاح دیتے ہوئے صلح کی ایک کاوش کا آغاز کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کئی گھروں میں کئی کئی افراد صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران ہیں تو پھر سردار صاحب کا اپنے بیٹوں کو ٹکٹ نہ دینے کا شکوہ جائز ہے۔ کھوسہ صاحب کی عمر بھر کی جدوجہد صرف سینیٹر بنا کر کھڈے لائن لگا دینے کی متقاضی نہیں بلکہ سنجیدہ حوالے سے ہر معاملے میں ان کا عمل دخل مطلوب ہے۔ ایک گھر میں دو بڑے عہدے ہی کافی ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں اور سڑکوں پر سجے پوسٹرز کی تصاویر بھی عمران خان اور دیگر اپوزیشن کی تنقید کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ اگر پوسٹرز پر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے رشتہ داروں کی بجائے پارٹی کے سینئر اور مخلص اراکین کی تصاویر ہوں تو زیادہ بہتر محسوس ہو اور جمہوریت کو خاندانی وراثت اور بادشاہت کے طعنے دے کر رد کرنے کی روایت بھی عام نہ ہو۔ وزراء کی موجودہ کھیپ کی جگہ دیگر نظر انداز ممبران کو موقع دیا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ یقینا موجودہ وزراء حکومت کی بقا اور پارٹی کے استحکام کو اپنی ذاتی وزارتوں پر ضرور ترجیح دیں گے کیوں کہ وزارت کو بچاتے بچاتے حکومت سے ہاتھ دھونا انہیں کبھی گوارا نہیں ہو گا۔
وزیر اعظم صاحب ہفتے کا ایک دن تمام جماعتوں اور صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سیاسی کارکنوں کے لئے جب کہ ایک دن ملک و بیرون ملک سرمایہ کاروں، پالیسی سازوں اور ٹیکنو کریٹس سے ملاقات کے لئے وقف کر دیں تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے اور لوگوں کو احساس ہو گا کہ وزیر اعظم واقعتا سب سے بڑے وزیر ہیں۔ بھلے ان کے خلافِ ضابطہ یا مرضی مطالبات اور تجاویز کو نظر انداز کر دیا جائے مگر ان کی بات تو سنی جائے ورنہ بلڈی سویلینز کی طرح بلڈی ووٹرز اور بلڈی سپورٹرز کی اصطلاحات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوجائیں گی اور پھر کسی ملک سے کوئی مہم جو آ نکلے گا اور معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے پر تُل جائے گا اس لئے ضروری ہے کہ حالات کو خود ہی درست کر لیا جائے۔ اپنے دو تازہ شعر آپ کی نذر:
تعلق ختم کرنا چاہتی تھی
روایت آگے بڑھنا چاہتی تھی
نظر انداز ہونا تھی اذیت
کہانی زندہ رہنا چاہتی تھی
تازہ ترین