SMS: #NRC (space) message & send to 8001
(قائدتحریک الطاف حسین کالیکچر)
دنیاکے کسی بھی خطہ یاجغرافیہ میں کبھی بھی ہمیشہ سے کوئی ایک قوم آبادنہیں ہوتی بلکہ ہرچندسوسال بعدوہاں دوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والی دیگرقومیں آبادہوتی رہتی ہیں۔دنیامیں کوئی بھی قوم ایسی نہیں کہ وہ کسی ایک ہی زمین پرہمیشہ اسی طرح آبادرہی ہو۔اگر ہم مختلف خطوں میں آباد قوموں کی تاریخ کاجائزہ لیں کہ وہ کب سے وہاں مستقل طورپرآبادہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ سات، آٹھ سو سال، ہزار،دوہزاریاپانچ ہزار سال سے زائدنہیں مل پاتی ۔ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف انسانی ہجرتوںکایہ عمل چلتارہتاہے۔جب انسانوں کاکوئی بڑاگروہ ہجرت کرکے کسی علاقے میں جابستاہے تووہ گروہ اپنے ساتھ اپنی معاشرت ،ثقافت اورعلوم بھی لے کرجاتاہے۔اس طرح ہجرتوں کایہ عمل نئی نئی معاشرتوں کو جنم دیتاہے … نئے نئے علوم کے تبادلے اورنئی نئی ایجادات کا سبب بنتا ہے…گویایہ کہاجاسکتاہے کہ انسانی تاریخ ہجرتوں کے مسلسل عمل کی پیداوارہے۔
The human history is a product of persistant act of migration.
انسانی تاریخ ہجرتوں کے تسلسل کانتیجہ ہے…ہجرتوں کے عمل کے بغیرتاریخ انسانی مکمل نہیں ہوتی…کسی بھی جغرافیہ میںآبادکبھی کوئی قوم آگے نکل جاتی ہے اورکبھی کوئی قوم پستی میں چلی جاتی ہے…یہ حقیقت ہے مگرانسانی نفسیات یہ ہے کہ انسان تاریخ کے تلخ حقائق سے نہ صرف انکارکرتاہے بلکہ ان تلخ حقائق کوسننے تک کیلئے تیارنہیں ہوتا۔
مہاجراورپناہ گزین
بعض افراد ہجرت کرنے والوں یعنی مہاجروں کوپناہ گزین قراردے کرعوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مہاجراورپناہ گزین میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔جولوگ اپنے علاقوں میں قومی ، مذہبی یانسلی بنیادپرجنگ…کسی بھی قدرتی آفت…بڑے حادثے …سانحہ… یاکسی وباء کے پھیلنے کی وجہ سے اپنی جانیں بچانے کیلئے عارضی طور پرکسی دوسری جگہ پناہ لیتے ہیں انہیں پناہ گزین (Refugee) کہتے ہیں …جنہیں اپنے علاقوں کے حالات بہترہوجانے کے بعد واپس جانا پڑتاہے جبکہ جو لوگ اپنے آبائی وطن کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے ترک کرکے کسی دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں…وہیں بس جاتے ہیں اوراسی علاقے کواپناوطن بنالیتے ہیں انہیں مہاجر یا immigrant کہاجاتاہے۔ مثال کے طورپرنبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ کوخیربادکہہ کر مدینہ منورہ ہجرت کی …آپ ؐ کے صحابہ کرام ؓ نے بھی ہجرت کی اورفتح مکہ کے بعد بھی آپ ؐ نے مدینہ منور ہ ہی میں سکونت اختیارکی اورمدینہ منورہ ہی کو ہمیشہ کیلئے اپنامسکن بنالیا… حضورؐ کاروضہء مبارک بھی مدینہ منورہ میں ہے۔
ترک وطن اورہجرت
بعض کنفیوژ لوگ ترک وطن اورہجرت کوالگ الگ قراردیکردوسرے لوگوں کوکنفیوژکرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ ہم نے ترک وطن کیاہے، ہجرت نہیں کی۔ایساکہنادراصل اپنے آپ کودھوکہ دینا اور ایک ٹھوس حقیقت سے انکار کرناہے۔جب کوئی فردیاافرادکاکوئی گروہ اپنے آبائی وطن کو ترک کرکے کسی دوسرے علاقے یاوطن میں جاکرمستقل طورپرآبادہوجاتاہے تویہ پورا عمل دراصل ہجرت ہی ہوتاہے۔ترک وطن اورہجرت کوئی الگ الگ چیز نہیں۔اپناوطن ترک کرکے… یااسے چھوڑ کرکسی دوسرے وطن میں آبادہونے کے لئے ہجرت لازمی ہے ۔گویاہجرت کے بغیر ترک وطن ہونہیں سکتا ۔ جواپنا آبائی وطن ترک کرکے کہیں ہجرت کرجاتاہے اسے مہاجرکہاجاتاہے… چاہے وہ مانے یانہ مانے۔اس سے انکاردراصل اپنے آپ سے انکارکرناہے اورجواپنے آپ سے انکارکرتے ہیں انہیں دوسرے بھی تسلیم نہیں کرتے۔
مہاجر کی فضیلت قرآن مجید کی روشنی میں
لفظ ’’ مہاجر ‘‘ ایک قابل احترام لفظ ہے جس کی حرمت اورفضیلت کواللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں کئی سورتوں میں بیان کیاہے۔ اس کی چندمثالیں پیش خدمت ہیں۔
قرآن مجید کے پارہ نمبر 28میںسورہ الحشر کی آیت نمبر8میں اللہ کافرمان ہے… ’’ اوران مہاجرمسکینوںکیلئے جو اپنے گھروں اورمالوں سے خارج ( اور جدا ) کردیئے گئے ہیں۔ ( اور ) اللہ کے فضل اورخوشنودی کے طلب گار اوراللہ اور اس کے پیغمبرکے مددگارہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں‘‘
سورۂ الاحزاب کی آیت نمبر6میںارشادباری تعالیٰ ہے… ’’ اوررشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمان اورمہاجروںسے ایک دوسرے( کے ترکے) کے زیادہ حقدارہیں ۔مگریہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرناچاہو۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن ) میں لکھ دیا گیا ہے‘‘۔
قرآن کے پارہ نمبر14 میں سورہ النحل کی آیت نمبر41 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے… ’’ اورجن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعداللہ کے لئے اپناگھرچھوڑاہم ان کودنیامیں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اورآخرت کااجرتوبہت بڑاہے۔کاش وہ ( ایسا) جانتے ‘‘۔
سورہ النحل ہی کی آیت نمبر110میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے… ’’پھر جن لوگوں نے ایذائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا۔ پھرجہادکئے اورثابت قدم رہے، تمہارا پروردگار بے شک ان کوان( آزمائشوں ) کے بعد بخشنے والا ( اوران پر ) رحمت کرنے والا ہے ‘‘۔
پارہ نمبر4میں سورۂ آل عمران کی آیت نمبر195میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے…’’ جولوگ میرے لئے وطن چھوڑ گئے اوراپنے گھروں سے نکالے گئے۔ اورستائے گئے۔ اور لڑے۔ اورقتل کئے گئے ہیں ان کے گناہ دورکردوں گا اور ان کوبہشتوں میں داخل کردوںگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ( یہ ) اللہ کے ہاں سے بدلہ ہے۔ اوراللہ کے ہاں اچھابدلہ ہے ‘‘ ۔
پارہ نمبر5 میں سورۂ النساء کی آیت نمبر100 میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے… ’’ اورجوشخص اللہ کی راہ میں گھربارچھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اورکشائش پائے گا۔ اورجوشخص اللہ اوران کے رسول کی طرف ہجرت کرکے گھرسے نکل جائے۔ پھراس کوموت آپکڑے تواس کاثواب اللہ کے ذمہ ہوچکا۔ اوراللہ بخشنے والا اورمہربان ہے‘‘ ۔
پارہ نمبر9 میں سورہ الانفال کی آیت نمبر74میں فرمان الٰہی ہے… ’’ اورجو لوگ ایمان لائے اوروطن سے ہجرت کرگئے۔ اوراللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے۔جنہوں نے( ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اوران کی مدد کی یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ان کیلئے ( اللہ کے ہاں ) بخشش اورعزت کی روزی ہے‘‘
سورہ الانفال کی آیت نمبر75میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے… ’’ اورجولوگ بعدمیںایمان لائے اوروطن سے ہجرت کرگئے اورتمہارے ساتھ ہوکر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی سے ہیں۔ اوررشتہ داراللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدارہیں۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہے‘‘
پارہ نمبر17میں سورۂ الحج کی آیت نمبر58میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے… ’’ اورجن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ پھرمارے گئے یا مر گئے۔ ان کواللہ اچھی روزی دے گا۔ اوربے شک اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ‘‘ ۔
پارہ نمبر2کی سورہ البقرۃ کی آیت نمبر 218میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے… ’’ جولوگ ایمان لائے اوراللہ کیلئے وطن چھوڑ گئے اور( کفار سے ) جنگ کرتے رہے وہی اللہ کی رحمت کے امیدوارہیں ۔ اوراللہ بخش دینے والا ( اور ) رحم کرنے والا ہے ‘‘ ۔
قرآن مجیدکی ان سورتوں کی آیات مبارکہ میں ہجرت کرنے والوں کوخود اللہ تعالیٰ نے عزت واحترام سے نوازا ہے اوران کی فضیلت بیان کی ہے … اس سے انکار قرآن سے انکارہے… لہٰذا لفظ’’ مہاجر ‘‘کی تذلیل اورتضحیک کرنا اورلفظ ’’مہاجر‘‘کوگالی قراردینا نعوذبااللہ فرمان الٰہی کی توہین کے مترادف ہے… ہجرت کرنے والے نبی اکرمؐ اور ان کے صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ۔
قوم اورقومیتیں
کوئی بھی قوم جزو واحدنہیںہوتی بلکہ مختلف ذیلی قومیتوں یاذیلی شناختوںکامجموعہ ہوتی ہے۔مثال کے طورپرسندھ میں رہنے والے خودکو سندھی کہتے ہیں لیکن وہ بھی مختلف قوموں، قبائل اورگروہوں پر مشتمل ہیں جن کی اپنی اپنی ذیلی شناختیں اورزبانیںہیں ۔ان میں سے بیشتر باہر سے آکر سندھ میں آبادہوئیں ۔ اسی طرح مہاجربھی 1947ء میں تقسیم ہند کے بعدہجرت کرکے بہت بڑی تعدادمیں سندھ میں آکرآبادہوئے جن کی اپنی شناخت ہے ۔سندھ میں آبادایک بڑی اکثریت کاتعلق بلوچ قبائل سے ہے جیسے کھوسو… لغاری… مگسی…مری… مینگل وغیر ہ ۔وہ اپنے نام کے ساتھ اپنے قبیلے کانام لگاتے ہیں مگرخودکوسندھی بھی کہتے ہیں۔انکے گھروں میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے ۔ کئی گھروںمیں بروہی زبان بولی جاتی ہے۔ جب سندھی ہونے کے باوجود مختلف قبائل کی شناخت پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا توپھرسندھ میں آبادمہاجروں کی اپنی شناخت پر اعتراض کیوں کیاجاتا ہے؟…اگرکوئی سومرو … مہر… کھوسو… لغاری…جونیجو …سیداوربلوچ ہونے کے باوجود سندھی ہوسکتاہے توپھرکوئی مہاجرہونے کے باوجود سندھی کیوں نہیں ہوسکتا؟
سندھ میں آبادبعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم سیدہیں اور تین سو سال پہلے عرب سے ہجرت کرکے سندھ آئے مگرآج سندھی ہیں ۔ یعنی جولوگ کئی سوسال پہلے عرب سے ہجرت کرکے سندھ آئے انہیں بھی سندھی بننے کیلئے ہجرت کے عمل سے گزرناپڑاگویاانہیں سندھی بننے کیلئے پہلے مہاجر بننا پڑا۔اس کامطلب یہ ہوا کہ سندھی بننے کیلئے پہلے مہاجر بننالازمی ہے۔اسی طرح آج امریکی بننے کیلئے پہلے مہاجربنناپڑے گا۔یعنی یہ کلیہ ہے کہ ہجرت کے عمل سے گزرے بغیرکسی بھی دوسری قوم کی تشکیل یاکسی دوسری قوم کاحصہ نہیں بناجاسکتا۔
شناخت کاتصور
دنیامیں بسنے والے تمام افراد انسان ہی ہیں مگران کے مختلف رنگ ہیں… نسلیں ہیں… زبانیں ہیں…مختلف قومیں ہیں…مختلف قبیلے… برادریاں …اورگروہ ہیں۔ قرآن مجیدکے پارہ نمبر26 میں سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے صاف اورواضح الفاظ میں ارشادفرمایاہے کہ ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے ۔ اورپھرتمہیں مختلف قوموںاور قبیلوں میں تقسیم کردیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کو شناخت کرسکو‘‘۔اس آیت مبارکہ سے بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوخود آپس کی شناخت کیلئے مختلف قوموں، قبیلوں اورگروہوں میں تقسیم کیاہے۔ لہٰذا کسی بھی انسان کویہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی بھی قوم …قبیلے …یاگروہ کی جانب سے اپنی شناخت کی بات کو اسلام کے خلاف… غلط… یابے بنیادقراردے… اس سے انکار کرے… یا اس کی توہین کرے۔کسی بھی قوم… قبیلے … نسلی یالسانی اکائی کی شناخت کاتصوربرحق ہے… اورخداکے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ہے… اورجواس سے انکار کرتا ہے وہ خداکے تشکیل کردہ نظام سے انکارکا مرتکب ہوتاہے۔
اوپربیان کردہ سورہ الحجرات کی آیت مبارکہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوںکومحض شناخت اورپہچان کیلئے انہیں قوموں، قبیلوں ،قومیتوں اورنسلی ولسانی گروہوں میں تقسیم کیا۔لیکن اسی آیت میںاللہ تعالیٰ نے آگے چل کر اس کی وضاحت کردی ہے کہ ’’ تم میں سب سے افضل اورشریف وہی ہے جوتقوی ٰ میں سب سے اعلیٰ ہو…یعنی سب سے زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔ یعنی اس پہچان کا… اس شناخت کا… اس تقسیم کامقصدہرگز یہ نہیںکہ جو شخص فلاں فلاںجانی پہچانی شناختوںمیں سے کسی شناخت کے ہاں پیداہوتاہے تواس پہچان کی وجہ سے وہ معاشرے میں افضل قرار پائے گا۔اسی طرح کسی شناختی تقسیم کی بنیادپر انسان نہ توکم تر درجے کاانسان کہلائے گا …اورنہ ہی کسی شناخت کی بنیادپر اعلیٰ درجے کاانسان کہلائے گا۔یعنی اس آیت مبارکہ میں کہیںبھی یہ نہیں کہاگیاہے کہ سب سے افضل وہ ہے جوفلاں قومیت کاہوگا اورفلاں قومیت کافردکم ترہوگا… پراناسندھی سب سے افضل ہوگا اورسب سے کم تروہ ہوگا جو نیا سندھی یامہاجر ہوگا۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طورپرارشاد فرمایاہے کہ افضل وہ ہے جوتقویٰ میں آگے ہوگا…جوپاک بازی میں اعلیٰ ہوگا…جوپرہیزگاری میں سب سے بڑھ کرہوگا۔یہ انسان کانہیںبلکہ اللہ کاپیش کردہ اصول ہے ۔
عزت کامعیار دولت نہیں
سرکاردوعالم حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ نے پوری زندگی احترام انسانیت کادرس دینے میں گزاری۔آپؐ نے ہمیشہ یہی تبلیغ کی کہ آپس میں مساوات قائم کرو …سب کے ساتھ یکساں سلوک کرو…فیصلے کرتے وقت مشاورت کرو…میرٹ کی بنیادپر…تقوے کی بنیادپرفیصلے کرو۔ آپؐ نے اس بنیادپر کسی کو افضل اوراعلیٰ قرارنہیں دیاکہ کون کتنے سال سے کہاں آبادہے …بلکہ آپ ؐ اورآپؐکے صحابہ کرام ؓ اوراہل بیت ؓ نے توہمیشہ عدل وانصاف اور مساوات قائم کرنے کادرس دیا۔قرآن مجیدمیںاللہ تعالیٰ نے جومعیاربتایاہے وہی دنیاکے جدیدترین معاشرتی علوم اورسماجی اقدارمیں بھی موجود ہے ۔ کہیںبھی یہ نہیںکہا گیاکہ عزت کامعیاریہ ہے کہ جو دولت میں آگے ہے وہ افضل ہے اورجوغریب ہے وہ کم تر ہے…حقیرہے…تیسرے چوتھے درجے کا شہری ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں عزت کامعیار دولت وجاگیرپرنہیں رکھاگیا۔قرآن مجیدہویاکوئی اورالہامی کتاب…اسلام ہویادنیاکاکوئی بھی مذہب … جمہوریت ہو…یاسوشیالوجی کسی بھی کتاب میں عزت کامعیار دولت نہیں۔
مسائل سب کے ہیں
میں نے مہاجروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اورحق تلفیوں کے خلاف تحریک بنائی اورعملی جدوجہدشروع کی۔ جب میںنے پورے ملک کے نظام کاجائزہ لیاتو معلوم ہواکہ پورے ملک کانظام فرسودہ ،جاگیردارانہ، وڈیرانہ ہے…ملک میں عزت اس کی ہے جس کے پاس دولت کے انبار ہیں … عدالت اس کی ہے جس کے پاس مال و دولت ہے…انصاف اس کے لئے جس کے پاس بڑی بڑی جاگیریں اورجائیدادیں ہیں …اس فرسودہ اور کرپٹ نظام اورمعاشرے میں پائی جانے والی اس تفریق کاتفصیلی جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاکہ مسائل مہاجروں کے ہیں تومسائل سندھیوں کے بھی ہیں …پنجابیوں کے بھی ہیں…پختونوں کے بھی ہیں…بلوچوں کے بھی ہیں…سرائیکیوں کے بھی ہیں…کشمیریوںکے بھی ہیں … گلگتیوں … بلتستانیوں کے بھی ہیں…سب کے مسائل ہیں…اوراس کاسبب طبقاتی کشکمش ، عدم مساوات اورمعاشی ناہمواری ہے… اورجب کسی معاشرے میں عدم مساوات ہوتی ہے…اونچ نیچ کی تفریق ہوتی ہے…معاشی ناہمواری ہوتی ہے… تووہاں انصاف کامعاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔میں اس نتیجے پر پہنچاکہ پورے ملک کے اس کرپٹ اورغیرمنصفانہ سسٹم کوبدلنے اورصحیح کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا میں نے 1990ء ہی میں’’ مہاجرقومی موومنٹ ‘‘ کو ’’متحدہ قومی موومنٹ ‘‘ میں تبدیل کرنے کافیصلہ کرلیاتھا اوراس کے لئے ساتھیوں کے ساتھ ملکر گراؤنڈورک شروع کردیا۔میں نے 14 اگست 1991ء کو اعلان کیاکہ آئندہ سال یعنی 14 اگست 1992ء کو ’’ مہاجرقومی موومنٹ ‘‘ کو ’’ متحدہ قومی موومنٹ ‘‘ میں تبدیل کردیاجائے گالیکن اس سے پہلے کہ اگست 92ء آتی ، 19جون 1992ء کوایم کیوایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیاگیاتاکہ ایم کیوایم ختم ہوجائے اورملک میں رائج اسٹیٹس کو قائم رہے۔تمام ترریاستی مظالم کے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری اوراپنی جدوجہدجاری رکھی۔ بالآخر 26جولائی 1997ء کو ہم نے ’’مہاجرقومی موومنٹ ‘‘ کو ’’ متحدہ قومی موومنٹ ‘‘ میں تبدیل کردیا تاکہ پاکستان بھر کی تمام قومیتوں، نسلی ولسانی اکائیوں اوربرادریوں سے تعلق رکھنے والے غریب ومتوسط طبقہ کے عوام جنہیں دوسرے تیسرے درجے کاشہری تصورکیاجاتاہے انہیں معاشرے میں ان کاجائزمقام دلایاجائے …انہیں بلدیات اور اسمبلیوںکے ایوانوں سمیت زندگی کے ہرشعبہ میں ان کے حقوق دلائے جائیں۔
ایم کیوایم کاپیغام…منصفانہ نظام کاقیام
ہم نے اونچ نیچ کی تفریق کے خاتمے اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہدکاآغازکیاتویہ نعرہ لگایاکہ ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ ،سردارانہ نظام کاخاتمہ کردیاجائے… اورایسے منصفانہ معاشرے کی تشکیل کی جائے جس سے چھوٹے بڑے کافرق مٹ جائے …اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا صرف جاگیرداروں، وڈیروں اورسرداروںکاہی حق تصور نہ کیاجائے بلکہ غریب ومتوسط طبقہ کے افراد کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنی صفوں سے قیادتیں نکال کرملک کے ایوانوں میں پہنچیں۔ایم کیوایم نے غریب ومتوسط طبقہ کی قیادت کاصرف نعرہ نہیںلگایابلکہ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات اور1988ء اور1990ء کے عام انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے غریب ومتوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کوبلدیات اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں بھیجا…انہیں بڑے بڑے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کے برابربٹھایا… انہیں عزت دی اورعملاً بتایاکہ اگرعزت جاگیرداروں، وڈیروں اورسرداروں کی ہے توغریب ومتوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی عزت ہے …وہ بھی معاشرے میں برابر کا حق رکھتے ہیں۔ ایم کیوایم نے مڈل کلاس انقلاب کانعرہ بعدمیںلگایا، شہری سندھ کی سطح پر غریب ومتوسط طبقہ کاانقلاب 1988ء ہی میں برپاکردیاتھا۔ شہری سندھ میں آنے والے اس انقلاب کی وجہ سے ایم کیوایم کاانقلابی پیغام ملک بھرمیں پھیلنے لگاتو جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کوبھی خوف ہواکہ اگر ایم کیوایم پورے ملک میں پھیل گئی تو ملک بھر میںمڈل کلاس انقلاب آجائے گااس لئے انہوںنے ایم کیوایم کے خلاف نفرتوں کے بیج بونے شروع کردئیے تاکہ ملک بھرکے عوام کوایم کیوایم سے متنفرکیاجاسکے…1992ء کاریاستی آپریشن بھی اسی وجہ سے ایم کیوایم کے خلاف کیا گیا تاکہ ایم کیوایم پورے ملک میں نہ پھیلے…ایم کیوایم کوپورے ملک میں پھیلنے سے روکنے کیلئے اس کے خلاف طرح طرح کے زہریلے پروپیگنڈوں اورسازشوںکاجوسلسلہ برسوں پہلے شروع کیاگیاوہ آج بھی جاری ہے …اندرون سندھ کے سندھی بولنے والے عوام کوبھی اسی لئے ایم کیوایم کے خلاف بھڑکایاجاتارہاہے اورایم کیوایم کے انقلابی پیغام کو لسانیت کہہ کرسادہ لوح سندھی عوام کوایم کیوایم کے خلاف بھڑکایاجاتاہے تا کہ وہ ایم کیوایم کے پرچم تلے نہ آئیںاور ایم کیوایم کواپنا دوست سمجھنے کے بجائے اسے اپنادشمن سمجھیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایم کیوایم سندھ کے غریب سندھیوںکوبھی وڈیروں کے ظلم وجبرکی زنجیروںسے آزادکرانا چاہتی ہے …ایم کیو ایم پورے ملک کے غریب ومتوسط طبقہ کے عوام کوان کاحق اورمعاشرے میںجائزمقام دلاناچاہتی ہے…ہم چاہتے ہیںکہ سندھ کے شہری علاقوں کی طرح پورے ملک سے غریب ومتوسط طبقہ کے نوجوان اورباصلاحیت افراد سینیٹ، قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں پہنچیں …ملک سے اونچ نیچ کافرق ختم ہو …معاشی ناہمواری ختم ہو…ملک میں عدل و انصاف اورمساوات کانظام قائم ہو …اورزندگی کے ہرشعبہ میں فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں … اورعزت اور افضلیت کامعیار دولت نہیں اہلیت ہو۔ اسی صورت میں ملک میں حقیقی معنوں میں منصفانہ نظام قائم کیاجاسکتاہے اورملک کوترقی اورخوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔