صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور معاشرے کے ان دو طبقات کا مقصد اور ہدف قریب قریب ایک ہے یعنی اصلاح معاشرہ۔ صحافت کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے پالیسیوں پر نظر رکھے اور مثبت تجاویز سامنے لائے اور اہل سیاست کا کام معاشرے کے مسائل کاحل نکال کر ملک کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی سمت کا تعین کرکے مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت قوم میں پیدا کریں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم معاشرتی اصلاح احوال کے اس کلیہ کو اپنے مخصوص اورذاتی مفادات کے حصول کے خاطر اختیار کرنے سے گریزاں ہیں گزشتہ دنوں جنگ کی اشاعت میں ایک مضمون بعنوان’’ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی ناکام حکمت عملی‘‘شائع ہوا جس میں کالم نگار رقمطراز ہیں کہ MQMمیں اصل کنٹرول مسلح ونگ کا ہے۔ حیرت کے یہ وہ الزام ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے لگایا جاتارہاہے اس ضمن میں الزامات تو بہت ہیں بعض ریاستی ادارے بھی یہ الزامات لگاتے رہے تاہم آج تک کوئی ایک الزام بھی عدالتوںمیں ثابت نہ کیا جاسکا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی رپورٹیں بھی منظرعام لائی گئیں لیکن عدالتوں میں ثابت نہ کی جاسکیں۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو ملک کے لاکھوں عوام کا مینڈیٹ رکھتی ہو وہ بھی اتفاقی یا حادثاتی طور پر نہیں بلکہ گزشتہ27سالوں سے عوام کا اعتماد حاصل کئے ہوئے ہے۔ اس پر اس طرح کا الزام لگانا کون سی صحافت ہے؟ آزادی اظہار رائے کا حق سب کوحاصل ہے لیکن الزامات لگاتے وقت جھوٹی یا سچی کوئی دلیل تو سامنے لائی جائے۔ رہا سوال ایم کیو ایم کے کسی علاقائی رہنما کے روپوش ہونے یا ملک سے باہر جانے کا تو فاضل کالم نگار اپنے آپ کو بہت باخبر گردانتے ہیں تو کسی کا نام تو لیتے اگر وہ کسی کانام سامنے لاتے تو مجھے یقین ہے ایم کیو ایم کا وہی رہنما انہیں فون کر کے ان کی غلط فہمی کو دور کردیتا کیوں کے تنظیمی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد ایم کیوایم کے کارکنان اپنی تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں موروثی یا روایتی سیاست کرتے ہوئے کسی اور جماعت میں شامل نہیں ہوتے۔ اس جماعت میں کسی کو ہٹایا نہیں جاتا بلکہ ذمہ داریاں تبدیل ہوتی ہیں یاپھر واشگاف الفاظ میں اسےمعطل یا خارج کیا جاتا ہے۔فاضل کالم نگار مزید لکھتے ہیں کہ مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ میں تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اوروہ دوبارہ روایتی مینڈیٹ کو بچانے کیلئے مہاجرصوبے کا ڈھول پیٹ رہی ہے۔ مشہور قول ہے کہ غلط فہمی اور خوش فہمی میں بڑا باریک فرق ہوتا ہے یہ کہنا کہ متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اگر انتخابی سیاست کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی لیکن آج ملک میں جو تبدیلی کی بات کی جارہی ہے غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کی باتیں ہورہی ہیں نظام بدلنےکی آوازیں آرہی ہیں سیاسی فیصلے بڑے خانوادوں اور محلوں کے بجائے ملک کی پارلیمنٹ کی ذمہ داری قراردی جارہی ہے تو ملک میں اس شعوری سیاست کا پہلا روح رواں کون تھا۔ تاریخ کے اوراق اس کا بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اب یہ کسی کی غلط فہمی ہے یا خوش فہمی اس کا فیصلہ قارئین کی صوابدید پرچھوڑتے ہیں۔ رہی بات مہاجر کی تو راقم کا مشورہ ہے کہ ترک وطن کرنے والے اور ہجرت کرنے والوں کے فرق کو سمجھنے کے لئے تاریخ کا مطالعہ کریں مہاجر دائمی طور پر مہاجر ہوتا ہے لفظ مہاجر کے ساتھ اسلامی تشریحات کا آنا فطری تقاضہ ہیں کیوں کہ فلسفہ ہجرت اسلام سے ہی ماخوذ ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے متحدہ کی تشکیل کے وقت یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ مہاجرسیاست غلط ہے بلکہ انہوں نے مہاجر قومی مومنٹ کو متحدہ میں تبدیل کرتے وقت یہ کہا تھا کہ جن مسائل کا شکارمہاجر ہیں، انہی مسائل سے پورے ملک کے عوام دوچار ہیں اور آج بھی ان کا یہی موقف ہے یہ سچائی اسی وقت سامنے آسکتی ہے کہ جب ہمارے پیش نظر کوئی منفعت بخش عہدے کی تمنا نہ ہو۔ رہا سوال نئے صوبوں کے قیام کا تو یہ مطالبہ اگر غیر آیئنی ہے تو اس کی توجیہ سامنے لائی جائے یہ کون سا کلیہ ہے کے پورے ملک میں صوبے بن سکتے ہیں لیکن سندھ میں نہیں کیا سندھ کا جغرافیہ کوئی الہامی حد بندی ہے؟ نہیں تو پھر یہاں صوبے بننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے اگر مہاجر صوبے پر اعتراض ہے تو اس پر مذکرات کا راستہ اختیار کرکے کوئی متفقہ نام سامنے آسکتا ہے مستقبل قریب میں شمال مغربی صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا تو لسانیت کا الزام پیش نظر کیوں نہ رہا؟ لہٰذا اس قسم کی سوچ زہر قاتل ہے۔ ہمیں مسائل کویکساں اصولوں کے تحت حل کرنا ہوگا ۔
اب آتے ہیں کالم نگار کی اس فکر کی جانب جو انہیں لندن کے حوالے سے ہے اس سلسلے میں انہیں راقم کا یہ مشورہ ہے کو خوابوں میں آئے تصورات سے اخبارات کے کاغذ سیاہ نہ کریں بلکہ برطانوی تحقیقاتی اداروں کے جاری کردہ پریس ریلیز سے استفادہ کریں اور حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں اور خواہش کو خبر بنانے کی کوشش میں نہ جانے کتنے لوگ ناکام ہوچکے ہیں کیوں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ برطانوی تحقیقاتی ادارے آپ کی اس کوشش کو اپنے کام مداخلت میں تصورکریں یا ان کی تحقیقات کا رخ آپ تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی تو ناکام نہیں ہوئے کیوں کہ سیاست میں راستے کسی کے لئے مستقل طور پرنہ تو بند ہوتے اورنہ ہی مواقع ختم ہوتے ہیں اوراس کا انحصارسیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر ہوتا ہے وہ انتخاب ہار کر بھی عوام میں واپس جاتی ہیں اور اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔