• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوبہ سندھ کے علاقے ’’تھرپارکر‘‘ میں قحط سالی نے تباہی مچادی ہے۔ بھوک اور پیاس کی شدت نے ایک ہفتے کے دوران سیکڑوں لوگوں کو جان بلب کردیا ہے۔ تھرپارکر کی تحصیل مٹھی اور چھاچھرو میں غذائی قلت کی بناء پرتا دم تحریر 10 معصوم بچے بچیاں دم توڑ چکی ہیں۔ بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر 47 افراد خودکشی کرچکے ہیں۔ تھر کے علاقے میں ایک سال بارش ہوتی ہے تو ایک سال قحط سالی۔ یہ ترتیب صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ لوگ گدھوں اور اونٹوں کے ذریعے کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ اس علاقے کے کنویں 250 سے لے کر 500 فٹ تک گہرے ہیں۔ جب پانی نکالتے ہیں اس وقت رَسّی جو ڈول کے ساتھ ہوتی ہے، اس سے مٹی اور گدھوں کی لید وغیرہ کنوئوں میں چلی جاتی ہے، اس لئے پانی ایک تو کڑوا جبکہ، گندہ اور مٹی والا بھی ہوجاتا ہے۔ یہ پانی لوگ استعمال کرتے ہیں جس سے کئی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ تھر پارکرکے ہر گھر کے 2 افراد پانی کنویں سے نکالنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ کہیں کمانے نہیں جاسکتے، جبکہ مستورات کنوئوں سے نکلا ہوا پانی مٹکوں کے ذریعے گھر لے جاتی ہیں۔ اگر تھرپارکر میں پانی کا مشکل ترین مسئلہ حل ہوجائے اور کنوئوں پر موٹریں لگ جائیں، کنوئیں سے 12 فٹ اوپر پانی جمع کرنے کے لئے ٹینک بنادیا جائے جس میں والو وغیرہ لگادئیے جائیں، تاکہ پائپ لائنوں کے ذریعے پانی گھروں تک پہنچ جائے تو یہ 2 افراد جو ہر گھر میں پانی کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں،ان کی جان چھوٹ جائے گی اور پھر یہ اپنے بچوں کے لئے رزق روٹی کما سکیں گے۔ تھر پارکر کے ان سنگین حالات کو دیکھتے ہوئے بہت سارے فلاحی اور رفاہی اداروں نے فراہمی آب پروگرام شروع کررکھے ہیں،لیکن حکومت خصوصاً سندھ حکومت خواب خرگوش میں ہے۔ حکومت کو بیدار ہونا چاہئے۔ اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں میں پینے کا پانی ایک ڈرم 500سے 1000روپے میں ملتا ہے۔ لوگ گندے اور مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی آب نوشی کا واحد ذریعہ وہ تالاب اور بڑے بند ہیں جو بارشوں کا پانی روک لیتے ہیں۔ مقامی آبادی مہینوں تک اسی پانی پر گزارہ کرتی ہے۔ اگر بارشوں کا سلسلہ رک جائے تو یہ تالاب بھی خشک ہوجاتے ہیں۔ان تالابوں کا پانی بھی زیادہ دیر تک ٹھہرنے کی وجہ سے متغیر اور متعفن ہوجاتا ہے۔ اسی پانی سے جہاں انسان اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں وہاں مویشی اور دیگر تمام حیوانات کا گزارہ بھی ہوتا ہے۔ کئی علاقوں میں لوگ 25،30کلو میٹر دور سے اونٹوںاور گدھوں پر پانی لاتے ہیں۔
یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں، انہیں زندگی کی سب سے اہم ضرورت ’’پانی‘‘ میسر نہیں۔ انہیں پینے کیلئے پانی نہیں ملتا تو صفائی اور دیگر ضروریات میں ان کو کتنی مشکلات کا سامنا ہوگا؟یاد رکھیں! قدرتی آفات اور سختیوں میں آفت زدہ انسانوں کی خدمت اور امداد پیغمبرانہ اوصاف میں سے ہے۔ آپ ﷺ پر پہلی مرتبہ جب وحی نازل ہوئی تو وحی کے بوجھ اور عظمت شان کی وجہ سے آپ خوفزدہ ہوگئے۔ گھر آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: ’’مجھے کمبل اوڑھا دو، اور فرمایا مجھے اپنی جان کاخطرہ ہے ۔‘‘ حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ آپ کو ضائع نہیں فرمائیں گے، کیونکہ آپ عاجز اور مجبوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کو کمائی کے قابل بناتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور قدرتی آفات میں لوگوں کی امداد فرماتے ہیں۔‘‘ ( بخاری باب بدء الوحی صفحہ: 3)آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ زمزم کے پاس تشریف لائے، وہاں لوگ پانی پلارہے تھے اور کام کررہے تھے۔ آپ نے فرمایا:’’یہ کام کرتے رہو، یہ بہترین عمل ہے، اگر تم مجھ پر غالب نہ آتے تو میں بھی کنویں میں اترتااور پانی نکالنے کی رسی اپنے کاندھے پر رکھ کر کام کرتا۔‘‘ (بخاری وحاکم بحوالہ تفسیر در منثور ج 4/ص147)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص راستے میں جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں پانی پینے کے لئے اتر گیا، پانی پی کر جب نکلا تو اس نے دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور شدید پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا اس کتے کو بھی ایسی ہی پیاس لگی ہے جو مجھے لگی تھی، اس نے کنویں میں اتر کر اپنے موزوں کو پانی سے بھر ا اور اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھ گیا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس کے اس فعل کی قدر کی اور اس کی مغفرت فرمائی۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا ہمیں جانوروں میں بھی ثواب ملتا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ہر جگر میں اجر و ثواب ہے۔‘‘ یعنی ہر زندہ جاندار کو کھلانے پلانے میں ثواب ہے۔ جانداروں اور حیوانات کے ساتھ ہمدردی پر ثواب ملتا ہے تو انسانوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا ثواب تو اس سے بڑھ کر ہوگا۔( بخاری و مسلم بحوالہ ریاض الصالحین صفحہ :9) حضرت سراقہؓ سے روایت ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اونٹوں کے بارے میں سوال کیا جو مالکان سے بھاگ کر آوارہ ہوتے ہیں اور وہ میرے تالابوں پر پانی پینے آتے ہیں حالانکہ میں نے حوض اپنے اونٹوں کے لئے بنائے ہیں۔ کیا ان کو پانی پلانے پر مجھے اجر ملے گا؟ ‘‘آپ نے فرمایا: ’’ہاں! ہر زندہ جاندار کو کھلانے پلانے میں ثواب ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ باب فضل صدقہ ماء حدیث نمبر3686)حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کی وفات ہوئی۔
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے کیا میں اس کے لئے صدقہ کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ ہاں‘‘ اس نے کہا:’’کونسا صدقہ بہتر اور افضل ہے۔‘‘آپ نے فرمایا:’’پانی پلانا۔ ‘‘ ( مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 22826 /اخر جہ النسائی ج2 /ص 255 وابن ماجہ 3684)حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگ قطاروں میں ہوں گے، ایک جہنمی شخص جنتی شخص کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا اے فلاں! کیا تجھے وہ دن یاد نہیں جب تو نے مجھ سے پانی مانگا تھا تو میں نے تجھے پانی پلایا؟ پس وہ جنتی شخص اس کے لئے سفارش کرے گا اور دوسرا جہنمی گزرے گا اور جنتی سے کہے گا: ’’تجھے یاد نہیں کہ میں نے تجھے طہارت کے لئے پانی فراہم کیا تھا؟ تو وہ اس کی سفارش کرے گا۔‘‘ (ابن ماجہ باب فضل صدقۃ ماء حدیث نمبر 3685)حضرت عائشہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’کس چیز کا دوسروں سے روکنا درست نہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’پانی، نمک اور آگ‘‘ حضرت عائشہؓ پوچھا: ’’پانی کا تو معلوم ہے اس کا روکنا صحیح نہیں، لیکن آگ اور نمک کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے فرمایا:’’جس نے نمک کسی کو دیدیا تو گویا اس نے وہ کھانا صدقہ کیا جو اس نمک کے ذریعے ذائقہ دار بن جاتا ہے۔ جس نے دوسرے کو آگ فراہم کی تو گویا اس نے اس آگ پر پکنے والی تمام چیزیں صدقہ کیں۔ جس نے کسی مسلمان کو وہاں پانی پلایا جہاں پانی آسانی سے میسر نہ تھا توگویا اس نے ایک غلام آزاد کرادیا۔ جس نے کسی کو اس وقت پانی پلایا جب پانی نہیں ملتا تھا تو گویا اس نے اس کو زندہ کردیا۔‘‘(معجم طبرانی اوسط حدیث نمبر 6588) ایک انسان کے دوسرے انسان پر کچھ حقوق ہوتے ہیں اور انہی حقوق کی رعایت و پاسدای کو صالح معاشرہ اور مثالی تمدن کہا جاتا ہے۔ شریعت چونکہ انسان کی دینی و دنیاوی فلاح کی ضامن ہے اس لئے شریعت نے ایسے حقوق کی بہت تاکید کی ہے۔ ہمدردی، ایثار، امداد باہمی اور دوسروں کی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون و خیر خواہی ایسے اوصاف ہیں جن کا مطالبہ شریعت ہر مسلمان سے کرتی ہے۔
تو قارئین! اس وقت تھرپارکر کے مختلف حصوں میں پانی کی قلت ایک بحرانی کیفیت اختیار کرچکی ہے۔ سینکڑوں میلوں پر مشتمل علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ بے آب و گیاہ علاقوںمیں لوگ شدید قلتِ آب کا شکار ہیں۔ قحط اور خشک سالی نے چشموں کو خشک کرڈالا، زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں، ہزاروں فٹ نیچے چلی گئی، باغات اور کھیت سوکھ گئے، مواشی اور جانور مرگئے، یہاں تک کہ بعض علاقوں میں لوگوں کے لئے اپنی جانیں بچانا مشکل ہوگیاہے۔ آپ کی ذرا سی توجہ سے ہزاروں زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ کون ہے جو عیش وعشرت کی زندگی میں ایک دن کی کمی کرکے اس کی رقم بے بس انسانوں کی جان بچانے کے لئے بانٹ دے… پیاس سے جاں بہ لب انسان کے لئے ایک گھونٹ پانی آبِ حیات بن جاتا ہے اور بھوک سے مرتے انسان کو بر وقت ایک لقمہ ملے تو گویا اسے زندگی مل جائے… لیکن وقت گزر جائے تو ایک قطرہ کیا برسات بھی… اور ایک لقمہ کیا خوراک کے انبار بھی… اسے دیے جائیں تو اس کو زندگی واپس نہیں دلا سکتے۔
تازہ ترین