• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن پاک میں ہے کہ ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ‘‘۔ رسول ؐ خدا کا فرمان ہے کہ ’’مومن بزدل ہو سکتا ہے ،خائن ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ‘‘۔امام غزالی کہتے ہیں کہ ’’سب انسان مردہ ہیں زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں۔سب علم والے سوئے ہوئے ہیں بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں۔ تمام عمل والے گھاٹے میں ہیں نفع والے وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں اور سب اخلاص والے خطرے میں ہیں،صرف وہ کامیاب ہیں جو تکبر سے پاک ہیں ‘‘۔دو ماہ پہلے پروفیسر احمد رفیق نے کہا کہ اگر ڈاکٹر قادری کی سب باتیں سچ مان لی جائیں تو پھر نعوذ بااللہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ امام مہدی ہیں ۔جھنگ کے ایک لوئر مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی سے متاثر ہو کر ان کی کتاب ’’منہاج القرآن‘‘ کے نام پر اپنی جماعت بنانے والے ڈاکٹر قادری کے قول وفعل کے انہی تضادات پر شریف خاندان سے انہیں متعارف کروانے اور عبدالشکور سے طاہر القادری بنانے والے عراق بدر ان کے روحانی پیشوا علاؤالدین (ایوب ،بھٹو اور ضیاء بھی جن کے معتقدین میں شمار ہوتے تھے) نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’طاہر القادری ہر کام میں جلد بازی کر جاتے ہیں اور طاہر القادری کا سب سے بڑا حریف طاہر القادری ہی ہے ‘‘۔ یورپین فتوے،گرجا گھروں کی تعمیر یا ویٹی کن سے رابطے ،اُنہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے ان کی ذات کو فائدہ ہو ایاہو سکتا تھا۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری ہی تھے کہ جنہوں نے توہین رسالت قانون کے حوالے سے کہا کہ ’’اس قانون کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہے اور ضیاء الحق دور میں میری جدوجہد اور ایک موقع پر میرے 18گھنٹوں کے دلائل اس قانون کے بننے کی بنیاد بنے ‘‘پھر یہی ڈاکٹر صاحب تھے کہ جنہوں نے کینیڈا پہنچ کر مغرب کو کچھ اس طرح خوش کیا’’توہین رسالت کا قانون غیر مسلموں پر لاگو نہیں ہوتا اور اس کی تیاری میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے ‘‘۔دو ماہ بعد ڈینش ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ دو قدم اور آگے بڑھ گئے ’’توہین رسالت کے قانون پر مجھے تحفظات ہیں‘‘۔ ایک بار فرمایا ’’رسول ؐ پاک میرے خواب میں آئے اور اُنہوں نے مجھے کہا کہ طاہر میں پاکستان میں تمہارا مہمان بننا چاہتا ہوں ،لہذا میرے تمام انتظامات تم کرو۔شدید ردِعمل ظاہر ہوا تو 6ہفتوں میں ہی مکر گئے ۔لندن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نے عالم روحیہ (نیند ،خواب میں) میں امام ابو حنیفہ سے 15سے20سال تک تعلیم حاصل کی ۔چند ماہ بعد حیدر آباد میں تقریرکرتے ہوئے یہ مدت 9سال کردی ۔اور پھر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے ’’میں گزشتہ 35برسوں سے فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھ رہا ہوں ( اگر یہ مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ساری رات سونے کی بجائے عبادت کرتے رہتے تھے۔اب اگر وہ سو تے نہیں تھے تو پھر خواب میں امام ابو حنیفہ سے تعلیم کہاں اور کیسے حاصل کرلی ۔اور اگر سوتے تھے تو پھر فجر کی نماز عشاء کے وضو سے کیسے پڑھی) کیونکہ سونے سے تو وضو ہی نہیں رہتا ) پھر دھرنے کی تقریروں میں آپ کا یہ کہنا کہ ’’یہ پارلیمنٹ جعلی ہے اور یہ نظام باطل ہے (لیکن پھر خود ہی اس انتخابی نظام کا حصہ بننے کا اعلان فرمادیا ) پھر فرمایا کہ’’وزیراعظم سمیت سب کو جیل میں بھجوا کر واپس جائیں گے (مگر ایک ماہ بعد ہی اپنے مقدموں پر ڈیل کر کے چلتے بنے) ۔ہم کفن پہنیں گے یا یہ نظام اور’’ دھرنے والو اگر مقاصد کے حصول سے پہلے میں بھی واپس چلا جاؤں تو مجھے بھی شہید کر دینا‘‘۔یہ توصرف چند مثالیں ہیں آپ نے تو جوش خطابت اورذاتی شہرت کے لئے اتنے یو ٹرن لئے کہ خدا کی پناہ ۔ڈیڑھ ماہ پہلے میں نے ٹیلی فون پر حال احوال پوچھنے کے بعد کہا کہ ڈاکٹر صاحب امام خمینی بننے کا شوق اب بھی ہے یا اب کچھ اور بننے کا ارادہ ہے۔ قسطوں میں ہنسنے کے بعد کہنے لگے کہ’’ تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں‘‘ ۔یہ تب کی بات ہے کہ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے ۔’’ایک دن میں منہاج القرآن کے اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ بتایا گیا کہ نواز شریف ملنے آرہے ہیں ۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد اکیلے نواز شریف سیدھے میرے کمرے میں آئے ، دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگائی اور پھر میرے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی سنجیدگی سے بولے ’’ڈاکٹر صاحب سچ سچ بتائیں کہ کہیں آپ امام مہدی تو نہیں ہیں ‘‘۔نہیں بالکل نہیں۔ میں شدیدحیرانی میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔تو پھر آپ کون ہیں۔انتہائی سنجیدہ نواز شریف نے اگلا سوال کیا ۔میاں صاحب چھوڑیں آپ کن چکروں میں پڑ گئے ۔میں آگے بڑھ کر میاں صاحب سےگلے ملا اور اِنہیں بازو سے پکڑ کر کرسی پر بٹھادیا۔ڈاکٹر صاحب اب تو بتا دیں کہ آپ کون ہیں،جونہی ڈاکٹر قادری نے بات مکمل کی تو میں نے پوچھا ۔ میں اللہ کا بندہ اور عاشق ِ رسولؐ ہوں ۔
طاہر القادری نے جھٹ سے جواب دیا۔ڈاکٹر صاحب سنا ہے کہ آپ دھرنا ختم کر کے جارہے ہیں ۔میں اپنے اصل موضوع کی طرف آیا ۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں چلا جاؤں گا۔جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر قادری نے الٹا سوال کردیا ۔ عمران خان کو یہ پیغام پہنچانا کہ اب مزید میں دن بھر آپ کے دھرنے کی چوکیداری نہیں کر سکتا ، حکومت سے ون ٹو ون بات چیت شروع کردیں اور پھر آپ کا بدلا بدلا لہجہ،یہ سب دیکھ کرتو یہی لگتا ہے کہ آپ جا رہے ہیں ۔میں نے تفصیل سے سب کچھ بتایا ۔ہم بالکل بھی نہیں جارہے ۔انقلابی مقاصد کے حصول تک دھرنا جاری رہے گا اور ان افواہوں پر کان نہ دھریں یہ شکست خوردہ حکومت کی شرارتیں ہیں ۔ڈاکٹر قادری نے انتہائی اعتماد بھرے لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔لیکن اس گفتگو کے ٹھیک 25دن بعد جب وہ اچانک دھرنا ختم کر کے چلے گئے تو مجھے بالکل بھی حیرانی نہیں ہوئی۔ہاں البتہ چند دن قبل کینیڈا کے خوشگوار موسم اور پرسکون ماحول میں کمال اطمینان سے برگر کھاتے طاہر القادری کو دیکھا تو مجھے 10سالہ شازیہ ضرور یاد آئی جس کی ماں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی کا شکار ہوئی اور جو سب سے ایک سوال ہی پوچھتی ہے کہ میری ماں کا کیا قصور تھا ۔وہ بوڑھی اماں بار بار نظروں میں ضرور پھرنے لگی جو اپنے بیٹے کے قاتلوں کو پکڑوانے کیلئے دھرنے میں پہنچ گئی تھی ۔ مظفر گڑھ کا وہ خاندان ذہن میں ضرور آگیا جن کی خواتین وڈیروں کے ہاتھوں عزتیں لٹوانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو مسیحا سمجھ بیٹھی تھیں اور پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14مقتولین اور ان کے لواحقین ،31اگست کو وزیراعظم ہاؤس کے سامنے مرنے والے 3افراداور ان کے عزیز وا قارب،جیلوں،حوالاتوں اور اسپتالوں میں رسوا ہوتے سینکڑوں بے کس و بے بس اور لاچار انقلابی دھرنے والے اور مہینوں بھوک،پیاس برداشت کرکے بے یارومددگار گھروں سے دور برستی بارشوں اور چلچلاتی دھوپ میں بیٹھے رہے وہ ہزاروں لوگ جو ڈاکٹر طاہر القادری کے خود ساختہ انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔
ان کی لچھے دار تقریروں ،مذہبی دلفریبی اور چرب زبانی کی نذر ہوگئے ۔طاہر القادری آئے یا لائے گئے،خود گئے یا بھجوائے گئے ،کوئی ملکی ایجنڈا تھا یایہ بین الاقوامی سازش تھی ،اس کہانی سے پردہ بھی ضرور اٹھے گا ،مگر یہ طے ہے کہ ہمارے ہاں ،جہاں آدھا ملک گنوا کر بھی ابھی تک لڑائیاں لڑی جارہی ہوں ،شازشیں ہو رہی ہوں،مذہب کے نام پر منافقت نہ تھمی ہو ، اقتدار کی ہوس نہ مِٹی ہو اور جہاں مفادات کی گاڑی رکنے کا نام ہی نہ لے رہی ہو، وہاں ڈاکٹر قادری جیسے لوگ جہالت اور عقیدت سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور لوگوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے ۔جہاں 67سالوں بعد بھی معذور جمہوریت بیساکھیوں پر ہو اور جہاں 6سالہ بچی کی عزت اور 70سالہ ایدھی کا گھرتک محفوظ نہ ہو وہاں کرتب باز، مداری اور سرکس کے جوکر کبھی بے روز گار نہیں ہونگے،جہاں گھر کے نلکے سے پانی نہ آئے تو امریکی سازش ،چلتا چولہا بند ہو جائے تو یہودیوں کی کارستانی اور جہاں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہو کہ اگر ’’امریکہ مردہ باد‘‘ ریلی میں امریکی ویزا کاوٗنٹر کھل جائے تو پل بھر میں جلسہ گاہ کیا اسٹیج تک خالی ہو جائے وہاں گلو بٹ کے ڈنڈے سے طاہر القادری کے ایجنڈے تک ’’سب مایا ہے ‘‘ ۔
تازہ ترین