• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف اس گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اور ’’منتخب ایوان‘‘ کو ہی حکومت یا صاحب اقتدار قرار دیا جا سکتا ہے اور سب مل جل کر کاروبار حکومت چلاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے گالم گلوچ کی اجازت نہیں ہوتی۔ سیاست میں ماں، بیٹا، میاں بیوی اور بھائی تک انتخابات میں ’’آمنے سامنے‘‘ ہوتے ہیں مگر کیا مجال کہ ’’مشرقی روایات‘‘ پر کوئی حرف آیا ہو۔ گوالیار کے راجہ آنجہانی سندھیا اپنی والدہ مہارانی گوالیار کے مدمقابل لوگ سبھا کے الیکشن میں امیدوار تھے لیکن ماں بیٹا کا مقدس رشتہ اسی طرح برقرار رہا اور جب راجہ کامیاب ہو کر راج محل پہنچے تو ان کی والدہ نے گرمجوشی سے بیٹے کا استقبال کیا۔ مخدوم شہاب الدین نے اپنے چچا مخدوم رکن الدین کے مقابلے الیکشن لڑا مجال ہے کہ رشتہ اور اس کے احترام میں کوئی حرف آیا ہو۔ یہ جمہوریت کا ہی حسن ہے کہ برطانیہ میں وزیراعظم ولسن نے صرف ایک ووٹ کی برتری سے آئینی مدت پوری کی دور کیا جائیں پڑوس میں جب اٹل بہاری واجپائی کی پارٹی صرف چند ووٹوں سے ہار گئی تو بڑی آسانی سے چند ووٹ حاصل کئے جا سکتے تھے لیکن وزیراعظم واجپائی نے ایسا نہیں کیا اور لوک سبھا توڑ کر دو بار انتخابات کرائے کہ عوام کی موجود شرکت سے ہی جمہوریت جمہوری ادارے اور روایات مضبوط ہوتی ہیں لیکن ہماری تو ریت ہی نرالی ہے جو برسراقتدار آ جائے ’’مختار کل‘‘ بن جاتا ہے اور آپس میں ایسی ’’سیاسی محاذ آرائی‘‘ شروع ہو جاتی ہے جو جلسے، جلوس اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات سے دور مقدمات، گرفتاریوں اور سیاسی تصادم تک جا پہنچی ہے۔ 1988ء کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو دو بار حکمران بنی۔ اگرچہ یہ بڑی خوش آئند بات تھی کہ ملک میں ’’دو پارٹی سسٹم‘‘ ابھر کر سامنے آیا تھا لیکن ان دونوں پارٹیوں نے محاذ آرائی شروع کر دی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے ’’ہارس ٹریڈنگ تک کی گئی کہ چھانگا مانگا اور ایبٹ آباد میں ’’گھوڑوں کی خریداری کے بازار لگے جہاں ممبروں کی خرید و فروخت ہوئی جب محترمہ بی بی شہید برسراقتدار آئیں تو میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ایک سو کے قریب مقدمات قائم کئے گئے اور جب میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تب محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری پر مقدمات قائم کئے گئے اور زرداری صاحب نے ایک طویل عرصہ جیل بھی کاٹی اس طرح ان دونوں پارٹیوں کے ہاتھوں ’’جمہوریت کا حسن‘‘ کو داغ دار کیاگیا۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کئے گئے یہ کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے صحافیوں کو پیسے تقسیم کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ کہا جاتا رہا۔
یہ بات ہماری سیاست پر سو فیصد صادق آئی ہے کہ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔ موجودہ منتخب حکومتوں کو ابھی ڈیڑھ سال ہی گزرا ہے ایک بزرگ انقلاب اور دوسرے دھاندلی کا الزام عائد کرکے دھرنے تک جا پہنچے۔ حکومت کی غلطیوں، کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے لیکن چند ایسے ہیں جن کے طور طریقوں سے یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں نادانستہ طور پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی۔ شیخ رشید کا لہجہ تلخ ہوتا جا رہا ہے ساہیوال میں ارشاد ہوا کہ عمران کو پکڑو گے۔ میں ملک میں آگ لگا دوں گا۔ ارشاد ہوا باہر نکلو، مرو مار دو، جلائو گھیرائو کرو، یہ سن کر سابق مشرقی پاکستان کے رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی یاد آ گئے جنہوں نے ’’آگن جالو‘‘ کا نعرہ لگایا اور ایسی آگ بھڑکی کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ دوسری جانب کوئی کمی نہیں ہے۔ عابد شیر علی انہیں ’’شیداں مائی‘‘ کہہ کر مخاطب ہیں اور سب سے اہم اور قابل توجہ الزام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید کا ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید نے دہشت گرد گروپوں سے رابطے کئے ہیں۔ کس لئے اس بارے میں سنیٹروں نے کوئی بات نہیں کی لیکن اس پر فوری کارروائی ہونی چاہئے ایک اور انوکھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ جن کا پہلے ’’ایک میڈیا ہائوس‘‘ نشانہ تھا اب وہ یہ خبر لائے ہیں کہ صحافیوں، کالم نگاروں کو خریدنے کی کوشش کی گئی ان کا الزام ہے دھرنا ناکام بنانے کے لئے ایک خفیہ ادارے کو 270کروڑ روپے دیئے گئے۔ اینکرز کی بولی لگائی گئی جبکہ متعلقہ ادارہ کے سربراہ نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ کہتے ہیں اور درست بھی ہے کہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ویسے بھی سیاسی رہنمائوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی زبان استعمال کریں جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے۔
پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک ان کا یہ فرض ہے کہ وہ حقائق سامنے لائیں اس میں کوئی ڈنڈی نہ ماری جائے لیکن یہ بات بھی درست نہیں کہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانک دیا جائے ایک بڑا لیڈر عوام کے سامنے مثال ہوتا ہے۔ اور وہی اس طرح کے الزام عائد کرے اور ایسی زبان استعمال کرے جس سے دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو تو اس ’’قومی قیادت‘‘ سے امید نہیں کی جا سکتی۔ ہر ایک نے عمران خان کے پانچ مطالبات کی حمایت کی ہے کہ دھاندلی کی انکوائری کرائی جائے، الیکشن اصلاحات ہوں اور خود مختار آزاد الیکشن کمیشن بنایا جائے اس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے اور میڈیا ہائوسز کی جانب سے عمران خان یا علامہ صاحب کی کردار کشی کب کی گئی۔ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے ہیں اور الزام صحافیوں پر لگا دیئے ہیں۔ اگر اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو اسے سامنے لایا جائے ورنہ چھوٹی اور ہلکی بات نہ کی جائے، ماضی میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دور میں بھی ایسے الزام عائد ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح کے الزامات اور ’’جلائو گھیرائو‘‘ کی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ملک میں محاذ آرائی بڑھے گی جس کا سب کو نقصان ہوگا۔
اس وقت سیاسی افق پر ’’زرد آوازیں‘‘ ابھر رہی ہیں۔ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی رہنما مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں ایک دوسرے پر الزامات عائد نہ کئے جائیں جلسے، جلوس ضرور کریں تاکہ عوام میں سیاسی شعور اجاگر ہو ایسا نہ ہو کہ نفرتیں اور بڑھ جائیں اس حوالے سے حکمران جماعت سمیت سب کو تحمل برباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ورنہ کل کا مورخ انہیں ہی ذمہ دار قرار دے گا!!
تازہ ترین