• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز میں نے اسلام آباد میں ایک تنظیم چائلڈ رائٹس موومنٹ(سی آر ایم) جو 3سو سے زائد این جی اوز کے نیٹ ورک پر مشتمل ہے کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں شرکت کی ، ورکشاپ میں میڈیا کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی ، سیمینار میں میڈیا پر بچوں کے مسائل کی نشاندہی کرنے پر صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا، سیمینار کے میزبان سید اشتیاق الحسن گیلانی نے کہاکہ بچوں کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہورہاہے، جس کے باعث بچے مختلف خطرات سے دوچار ہیں، بچوں کے رائٹس کے حوالے سے آگاہی دینے کیلئے مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کوشش تھی۔
لیکن مجھے اس ورکشاپ میں میڈیا کے وہ بڑے ستون نظر نہیں آئے جو روزانہ شام کو ایک سیاسی اکھاڑا سجاتے ہیں اور اس میں نفرت اور تنقید کی لنگوٹ کس کر سیاسی پہلوان قواعد و ضوابط اور قوانین کا خیال رکھے بغیر دائو پیچ لگا رہے ہوتے ہیںاور میڈیا کے یہ بڑے نام ہلکی ہلکی نہ نہ کرکے لیکن زیر لب مسکرامسکرا کر فریقین کو تھپکی دے رہے ہوتے ہیں کہ شاباش لگے رہو کہ ’’گلشن کا کاروبار چلے‘‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منتظمین نے ان بڑوں کو دعوت ہی نہ دی ہو لیکن میرا خیال ہے کہ چائلڈ رائٹس کیلئے میڈیا کے ان بڑے اینکر کی خدمات ضرور حاصل کرنی چاہیں ان کے انداز سے لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو دیکھا اور سنا جاتا ہے اور انہیں سن کر عوام اپنی رائے قائم کرتے ہیں، کالم کی ابتدائی سطور کے بعد اپنے موضوع سے بھٹک گیا اور ازراہ تفنن اپنے ہی قبیلے کے خلاف کچھ فقرے لکھ گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چائلڈ رائٹس بھی حقیقت میں مضبوط اور توانا پاکستان کے مستقبل کی ضمانت ہے، ورکشاپ میں کسی نے کیاخوب کہاکہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک جانوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں لیکن ہم اپنے ہی بچوں کو جو ہمارا مستقبل ہیں کے حقوق کوپس پشت ڈال رہے ہیں ورکشاپ میں موجوداینکر جواد فیضی نے ورکشاپ میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے اچھے دلائل دیئے۔
پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے اور ہمارے مقابلے میں کم وسائل والے اور چھوٹے ممالک بھی بہتر ہیں ۔ہمارے ملک میں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ آگاہی کا نہ ہونا بھی شامل ہے یہی وجہ ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے علاوہ زچگی کے دوران مائوں کی ہلاکتیں بھی بہت زیادہ ہیں، پاکستان کے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں زیادہ تر مائیں اپنے گھروں میں ہی غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں اپنی یا اپنے بچوں کی جانیں گنوا بیٹھتی ہیں، یا اگر کسی پیچیدگی کی وجہ سے گھر والے زچہ کو کسی ہسپتال میں لے جانا بھی چاہیں تو دوری اور ٹرانسپورٹ یا سڑکوں کی عدم دستیابی یا عدم موجودگی سے یہ مائیں راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہیں، لیکن اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ زچگی کے دوران توہم پرستی بھی اموات کی ایک وجہ ہوتی ہے اور اگر ہم نوزائیدہ بچوں اور زچگی کے دوران مائوں کی اموات کا تناسب نکالیں تو یہ تناسب ملک میں دہشتگردی کے ہونے والے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہوگا۔حقیقت میں حکومتوں سے پہلے ہمیں والدین کو یہ آگاہی دینا ضروری ہے کہ بچوں کے حقوق کیا ہیں اور والدین خود ان حقوق کو کس طرح نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ سب سے پہلا فرض والدین کا ہے کہ اپنے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کا خیال رکھیں ، اپنے وسائل کے مطابق بچوں کی پیدائش کے حوالے سے خیال رکھیں، بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ بچوں کے حقوق کا پہلا قدم ہے لیکن ہم ان باتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں، اور بچوں کی زیادتی کی وجہ سے انہیں وہ خوراک، تعلیم یا صحت کی سہولیات نہیں دے سکتے جس کے وہ حقدار اور ان کی نشونما کیلئے ضروری ہیں، تعلیم میں گریڈ اور پوزیشن حا صل کرنے کے حوالے سے بچوں پر دبائو بھی بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور بچوں پر یہ دبا ئوتعلیمی اداروں سے زیادہ والدین کی طرف سے ہوتا ہے ، بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل اور تفریح نہ دینا بھی بہت بڑی زیادتی ہے ، لیکن چند کمروں کےا سکول جہاں گراؤنڈ نام کی کوئی شے نہیں ہوتی بچوں کے حقوق پر ایک ڈاکہ ہے، میں سمجھتا ہوں ان چھوٹے چھوٹے لیکن اہم امور پر ہی توجہ دے لیں تو پھر حکومت پر بھی دبائو ڈال کر بچوں کے حقوق کی جنگ لڑی جاسکتی ہے ، لیکن منعقدہ ورکشاپ کا حاصل اور نچوڑ ایک نوجوان بچی کا یہ فقر ہ تھا جو دبے الفاظ میں کسی کو کہہ رہی تھی اور میں نے بھی وہ فقر ہ سن لیا، کہ ’’ عبدالستار ایدھی مرحوم‘‘ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوںنے کوئی سیمینار یا ورکشاپ نہ کرائی لیکن بے آسرا بچوں کے حقوق کیلئے عملی کام کرکے دکھایا۔

.
تازہ ترین