• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کا منٹو پارک جہاں 23مارچ 1940ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی تھی اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا ، وہ اِن دنوں سیاسی جلسوں اور اجتماعات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اِس ’’آزادی چوک‘‘ کو بقعۂ نور بنا دیا ہے اور حُسن و جمال کا چمنستان کھِلا دیا ہے۔ مینارِ پاکستان جو ہمارے وطن کی عظمت کی زندہ جاوید علامت ہے ، اِس نے قومی زعماء کی تاریخی تقریریں بھی سنی ہیں اور سیاسی کھلنڈوں کی باتیں بھی ۔۔۔ ہم نے بے سروپا گفتار اور بے ہنگم حرکات کو جمہوریت کا حُسن قرار دے دیا ہے ، اِسی لیے معاشرے میں نظم و ضبط کے بجائے ایک ذہنی آوارگی پرورش پا رہی ہے اور ہماری زندگیوں سے متانت، سنجیدگی اور مقصدیت غائب ہوتی جا رہی ہے، تاہم پچھلے دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے سہ روزہ اجتماعِ عام نے ایک ایسا منظر نامہ تشکیل دیا جس نے اعلیٰ سیاسی اخلاقیات، اسلام کی بے پایاں وسعت اور عصرِ حاضر کے مسائل کے صحیح ادراک اور بے مثال نظم و ضبط کی نہایت دلکشا مثالیں پیش کی ہیں۔ پچاس ایکڑ خطۂ زمین پر خیموں کا ایک شہر آباد تھا جس میں بلامبالغہ ڈیڑھ لاکھ نفوس مقیم تھے جو پورے ملک سے آئے تھے۔ صرف خواتین کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی جو بہت منظم اور بڑی پُرجوش تھیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم یافتہ خواتین معاشرے کو تبدیل کر دینے کے عزم کے ساتھ آئی تھیں۔ شرافت اور حیا کی آئینہ دار ، اُن کے دور تک پھیلے ہوئے خیمے دیکھ کر میرے اندر اُمید پیدا ہوئی کہ حقیقی تبدیلی کا ایک نیا عہد شروع ہونے والا ہے۔
اِس اجتماع میں اقلیت کے نمائندے بھی شریک ہوئے جو قومی یک جہتی اور بھائی چارے کے فروغ میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک بہت ذمے دار عہدیدار نے اِس ضمن میں ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا کہ مسیحی برادری کا ایک وفد اُن سے ملنے آیا اور اجتماع کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسیحی برادری کو اجتماع میں آنے اور اسلام کا پیغام سننے کی دعوت دی گئی تھی۔ وفد کے سربراہ نے کہا کہ ہم ضرور آئیں گے ، مگر آپ ہمارے ساتھ کنٹریکٹ کر لیں۔ اُن سے پوچھا گیا یہ کنٹریکٹ کیا ہے۔ وفد کے ارکان کی جانب سے انکشاف ہوا کہ علامہ طاہر القادری اور عمران خاں کے ساتھ بھی اُن کا کنٹریکٹ ہوا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اور خواتین فراہم کیے گئے تھے۔ طے پایا تھا کہ ہر شخص کو روزانہ ایک ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔ طاہر القادری صاحب نے اپنا وعدہ پورا کیا جبکہ عمران خاں صاحب نے ایک ہفتے بعد ہی ہاتھ اُٹھا لیا۔ (یہ معاملہ چند روز پہلے میڈیا میں زیر بحث آ چکا ہے اور کسی بھی فریق نے اس کی تردید نہیں کی)۔اُنہوں نے جماعت اسلامی کے عہدیدار سے کہا کہ ہم آپ کو بھی افرادی قوت فراہم کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اجتماع میں لاکھوں مردوخواتین آ رہے ہیں، آپ لوگ بھی آئیں اور خالقِ کائنات کی باتیں سنیں۔
اجتماعِ عام جسے ہر سال منعقد ہونا چاہیے ، وہ پانچ سال بعد منعقد ہوا تھا۔ ہمیں اِس میں روح پرور نغمے سننے کو ملے اور ترانے بھی۔ خیموں کے اِس شہر میں چار سو امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی قدآور تصوریریں نظر آئیں ، حالانکہ جماعت اسلامی کے خمیر میں اِس کی بہت کم گنجائش ہے کیونکہ جماعت کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی شخصیت پرستی کا بت پاش پاش کرنے اور اعلیٰ نصب العین کو قوتِ متحرکہ بنانے کی دعوت دیتے تھے ، مگر اب سیاسی چلن ہی یکسر تبدیل ہو گیا ہے اور پورے ملک میں سیاسی سربراہوں کی تصویریں کارکنوں میں جوش و خروش پیدا کرتی ہیں۔ غالباً یہ ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بنتی جا رہی ہے اور اِسی کو کمیونی کیشن کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی دعوت میں اِس قدر قوت موجود ہے کہ اگر اِس کا ابلاغ جدید محاورے میں کیا جائے ، تو وہ ذہنوں اور دلوں کو مسخر کر سکتی ہے۔
جناب سراج الحق ایک مزدور کے بیٹے ہیں، اُنہوں نے خود بھی بکریاں چرائی ہیں اور مفلسی کے نہایت کڑے دن دیکھے ہیں۔ اِس لیے اُن کا لہجہ عوامی اور اُن کا رہن سہن درویشانہ ہے۔ اُن کی باتوں میں عملیت پسندی کا رنگ بہت غالب ہے۔ اُنہیں خیبرپختونخوا صوبے میں دو بار وزیرِ خزانہ کے طور پر ایسے کارنامے سرانجام دینے کے مواقع ملے ہیں جن سے غریبوں اور مریضوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر صرف زکوٰۃ سائنٹفک طور پر جمع کر لی جائے ، تو اِن تمام شہریوں کو جن کی آمدنی تیس ہزار روپے سے کم ہے ، اُنہیں آٹے ، چاول ، چینی اور چائے پر سبسڈی دی جا سکتی ہے اور ہسپتالوں میں پانچ موذی بیماریوں کا مفت علاج کیا جا سکتا ہے۔ اِس ضمن میں اُنہوں نے اِس دعا کی ایک انقلاب آفریں تشریح کی جو ہم ہر نماز کے بعد اپنے رب کریم سے مانگتے ہیں جو یہ ہے ’’ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار‘‘۔ اُنہوں نے صراحت سے بتایا کہ حسنہ سے مراد ایک اچھی زندگی جس میں غربت و افلاس نہ ہو ، جبر و استحصال نہ ہو ، لوگ فاقوں سے خودکشی نہ کرتے ہوں ، عوام جہالت کی تاریکیوں میں نہ کھیلتے ہوں اور انسان انسان کا غلام نہ ہو۔ ایسی اچھی زندگی ہم دنیا میں بسر کریں گے ، تو آخرت میں بھی ہمیں ایک آسودہ زندگی میسر ہو گی۔ اُن کا خیال تھا کہ یہی دعا پوری انسانیت کے لیے ایک لازوال منشور ہے اور ہم پر لازم آتا ہے کہ معاشرے میں اجتماعی عدل قائم کیا جائے ، معاشی ناہمواریاں ختم کی جائیں، تعلیم کو فروغ دینے کے لیے عمدہ درس گاہیں قائم کی جائیں، مریضوں کے علاج کے لیے معیاری ہسپتال قائم کیے جائیں اور سب سے زیادہ ضروری یہ بات کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہوں اور بااختیار لوگوں کے لیے نہایت کڑا نظامِ احتساب کام کرتا ہو۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ظالم طبقہ اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ ظالم طبقہ انگریزوں کے زمانے سے مسلمانوں کی گردن پر سوار ہے اور ہم ووٹ کے ذریعے اِس سے اقتدار چھین کر دم لیں گے۔ اِس کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ہم کسانوں ، مزدوروں اور کم وسیلہ لوگوں کو منظم کر کے ایک ایسی فضا پیدا کریں گے جس میں ظالموں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو جائے گا۔
جناب سراج الحق جو تبدیلی ووٹ کے ذریعے لانا چاہتے ہیں ، اُنہیں اِس امر کا بھرپور احساس ہے کہ یہ کام عوامی بیداری اور ایک عظیم الشان سماجی تحریک اور طاقت ور لہر کے بغیر ناممکن ہے ، چنانچہ اُنہوں نے لاکھوں افراد سے عہدلیا کہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے ، غیبت نہیں کریں گے اور حرام نہیں کھائیں گے۔ اُنہوں نے تین بنیادی معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کی نشان دہی کر کے اور اِسے ایک اجتماعی تحریک میں ڈھال کر قوم کو ایک قابلِ عمل پروگرام دے دیا ہے۔ یہ کام جماعت کے مزاج اور اِس کی دعوت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اِس کے ذریعے ایک زبردست اخلاقی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ یہی اخلاقی انقلاب بہت بڑے سیاسی انقلاب کی بنیاد بنے گا۔ جماعت سے وابستہ لاکھوں افراد اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے ایک اچھی شہرت رکھتے ہیں اور اُن کے دامن استحصالی ہتھکنڈوں سے بڑی حد تک صاف ہیں ، اِس لیے وہ جو کچھ کہتے ہیں ، اِس پر عمل کرنے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں میں یہ جوہر کم کم پایا جاتا ہے۔ اِسی تناظر میں مینارِ پاکستان کے سائے میں منعقد ہونے والا اجتماعِ عام ایک صبح اُمید کا پیغام ہے۔ اِس اجتماع میں سابق امیر جماعت اسلامی جناب سید منور حسن نے جماعت کی مسلمہ پالیسی سے ہٹ کر اظہارِ خیال کیا ہے جو حیرت ناک بھی ہے اور قابلِ مواخذہ بھی۔ اُنہیں بلاشبہ اظہار کی آزادی حاصل ہے، مگر وہ جس عالمی تنظیم سے وابستہ ہیں، اُن کی آزادی سے اِسے گزند نہیں پہنچنی چاہئے۔ وہ نہایت زیرک انسان ہیں اور اُنہیں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ اِس سے فساد پیدا ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین