میاں محمد بخش فرماتے ہیں،
تےمیں انّاں تے تِلکن رستہ، دیوے کون سنبھالا
دھکے دیون والے بہتے تے توں ہتھ پکڑن والا
تے بیلی بیلی سب جگ آکھے تے میں وی آکھاں بیلی
اُس دن دا کوئی نئیں جے بیلی جدوں نکلے جان اکیلی
تے لے اویار حوالے رب دے تے میلے چار دِناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
میرا نام نور ہے اور میں نے اپنے خط کا آغازحضرت میاں محمد بخش کے اس کلام سے اس لئے کیا ہے کیونکہ میں پیدائشی نابینا ہوں۔اور نابینا ہونے کے باوجود نہ جانے میرے ماں باپ نے میرا نام نور کیوں رکھا ہے، میں بی اے کر رہی ہوں اور یہ جانتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے رحمٰن اور رحیم ہونے اور محمد مصطفیٰ ﷺکی اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرنے کے بعد ،ماں باپ کسی بھی انسان کے لئے مشفق ہستیاں ہوتی ہیں ، میرے والد بھی میرے لئے اسی طرح محبت کا سرچشمہ ہیں جس طرح ہرباپ اپنی بیٹی کے لئے ہوتاہے، میری ماں بھی میرے لئے اسی طرح تڑپ رکھتی ہے جس طرح بینا بچوں کی ماں اپنے بچوں کے لئے رکھتی ہے۔ میرے پیپرز ہوں میرے اسکول کالج کا کوئی فنکشن ہو، میں نے اپنی کسی دوست کے گھر جانا ہو تو میری ماں اب بھی میری انگلی پکڑ کر مجھے ٹھوکروں سے بچاکر لے جاتی ہے۔ میری ماں میرے لئے کپڑے پسند کرتی ہے۔ میرے جوتے خریدتی ہے۔عید پرمجھے مہندی لگواتی ہے اور میں جو بھی رنگ پہن لوں میرا ماتھا چومتی اور کہتی ہے نور تم پر یہ رنگ بہت سوٹ کرتا ہے۔ تمہارے ہاتھوں پر مہندی بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔ میری آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ میری آنکھوں میں روشنی نہیں ہے اور میں نے کئی بار دوسروں یا راہ چلتے لوگوں کے منہ سے یہ بھی سنا ہے کہ بے چاری انّی اے (اندھی ہے) لیکن میری ماں پھر بھی مجھے کہتی ہے کہ تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں لیکن علی بھائی میں آج تک اپنے لئے تڑپ رکھنے والی اس ماں کا چہرہ نہیں دیکھ سکی، اسکی آنکھوں میں اپنے لئے پیار نہیں دیکھ سکی، اسکی آنکھوں میں میرے دکھ میں چڑھنے والے آنسوئوں کے سمندر کو نہیں دیکھ سکی، عید پر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے مہندی لگوانے کے بعد ماں جو تعریف کرتی ہے وہ مہندی کے رنگ کبھی نہیں دیکھ سکی۔ میری کلائیوں میں ماں کی طرف سے زبردستی پہنائی جانیوالی چوڑیوںکے چمکتے رنگ نہیں دیکھ سکی۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات اپنے خوبصورت رنگوں سے سجا رکھی ہے لیکن جب میری ماں مجھے کہتی ہے کہ تمہیں گلابی رنگ بہت سوٹ کرتا ہے تو میں مسکرا دیتی ہوں، میرا دل اپنی ماں کی محبت میں بھر آتا ہے، لیکن مجھے یہ تو معلوم ہی نہیں کہ گلابی رنگ کیسا ہوتاہے۔ سرخی مائل رنگ کیسا ہوتاہے، سبز کونسا رنگ ہوتاہے، آسمان کا خوبصورت نیلا رنگ کیسا ہے، میں اپنے تخیل میں چیزوں کو محسوس تو کرسکتی ہوں لیکن رنگوں کی خوبصورتی اور انکے شیڈ نہیں دیکھ سکتی کیونکہ میں نام کی نور لیکن اندھی ہوں، لیکن میرا اللہ جانتا ہے کہ میں اس صورتحال سے غمگین نہیں ہوں، مجھے قدرت سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں اپنی بہترین دوستوں، اپنی بہن اپنے بھائی اپنے اساتذہ کو نہیں دیکھ سکتی، میں قلم سے لکھی روشنائی کا رنگ نہیں دیکھ سکتی میں تو ہرکسی کو خوبصورت سمجھتی ہوں کیونکہ میں خوبصورتی اور بدصورتی کا فرق سمجھتی ہی نہیں۔ میں نے اپنا بچپن بھاگ دوڑ کر نہیں گزارا ۔میں تو زمین کو اپنے قدموں سے ٹٹول ٹٹول کر چلتی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ قدموں کی ذرا سی لغزش مجھے گرا سکتی ہے اور یہ بات سارے اندھے جانتے ہیں۔ یہ ساری کتھا لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ شاید سارے نابینا لوگ میری طرح ہی ہوتے ہیں، جو اپنے رشتہ داروں کو اپنے شفیق ماں باپ کو اور جب اللہ تعالیٰ انہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو وہ اپنے ان جگر گوشوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا ہے کہ ہماری پولیس نے لاہور میں ان نابینائوں کو لاٹھیوں سے مارا ہے، انہیں دھکے دیئے ہیں ،انہیں سڑکوں پرگھسیٹاہے، صرف اس لئے کہ وہ اپنے حق کے لئے احتجاج کر رہے تھے۔ لاٹھی ٹیک کر اور زمین کو ٹٹول کر چلنے والے کیا اس احتجاج سے کسی کا تخت و تاج گرا دیتے ۔ کسی کا اقتدار چھین لیتے اگر ایساہے تو پھر ان اندھوں کو اور ماریں انہیں سڑکوں پر گھسیٹیں ، انکی ٹانگیں توڑدیں بلکہ انہیں ایک قطار میں کھڑا کرکے گولی سے اڑا دیں۔علی بھائی معافی چاہتی ہوں نہ جانے کیا کیا کہہ گئی۔ لیکن آپ نابینا لوگوں کو مارنے والوں کو یہ ضرور بتائیے گا کہ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ احتجاج کرنیوالے نابینا لوگوں کو اس طرح مارا پیٹا گیا ہو…!!