• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور سانحہ، خونی دسمبر میں۔ تینتالیس برس بیت گئے، سقوطِ مشرقی پاکستان کا زخم ابھی تک ہرا ہے کہ ایک اور المیہ ہو گیا، ایک اور گہرا زخم لگ گیا، میرے ننھے ننھے معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ بہیمانہ دہشت گردی کوئی لفظ نہیں جو اس واردات کو بیان کر سکے۔ لفظ کم ہیں، دکھ بہت زیادہ۔ اس دکھ کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دکھ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، اندر ہی اندر، دل کی گہرائی میں۔ اس کا اظہار آنکھوں کی نمی سے ہوتا ہو تو ہو، الفاظ میں ممکن نہیں۔ آنکھیں خشک ہی نہیں ہو رہیں۔ ذرا اِدھر ُادھر دیکھو، ذرا بات کرو، وہ چھلک پڑتی ہیں۔ یہ تو تازہ زخم ہے۔ آنکھیں تو اب تک مشرقی پاکستان کو جب جب یاد کرو نم ہو جاتی ہیں۔ آج کا دکھ بھی الفاظ میں بیا ن نہیں کیا جا سکتا۔ سارا دن گزر گیا، صبح سے شام ہو گئی۔ جب بھی خبر سنی آنکھ اشکبار ہو گئی۔ آنسوئو ں پہ کوئی اختیار نہیں تھا، بچوں کی تصویر دیکھ کر ، دل میں ان کے بارے میں سوچ کر، ان کے مظلوم، غمزدہ والدین کا خیال کر کے، آنسو خود ہی بہنے لگتے، بہتے ہی ر ہے ، رکتے ہی نہیں تھے۔ مظلوم ماں کا دل ہی جانتا ہے اُس پر کیا گزری۔ قیامت اور کیا ہوتی ہے۔
آج صبح بھی، ہر صبح کی طرح ،ان مائوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں، پھول سے بچوں کو محبت سے تیار کرکے اسکول بھیجا تھا۔ آنکھوں میں خواب سجائے۔ اور روز ہی مائیں بچوں کی واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ ذرا دیر ہو جائے تو پریشان ہونے لگتی ہیں۔ وین اب تک کیوں نہیں آئی؟ پتہ کریں۔ روز ایسا ہی ہوتا ہے، ایسے ہی ہوتا ہے۔ اسکول سے واپس آکر روز ہی بّچے ماں سے لپٹ جاتے، ماں انہیں گلے لگاتی، پیار کرتی، کپڑے تبدیل کراتی۔ ہر گھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ گھر کے گیٹ کے قریب بیٹھ کر اخبار پڑھنا ایک معمول ہے۔ دو پہر کے بعد بّچے آنا شروع کرتے ہیں، ان کی وین کی آواز سن کر گیٹ کھول دیتا ہوں۔ وہ ایک ایک کرکے آتے جاتے ہیں، سلام کرتے ہیں، گلے لگتے ہیں، پھر اپنی اپنی مائوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ کپڑے تبدیل کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ کھا پی کرسونے چلے جاتے ہیں۔
سب گھروں میں یہی ہوتا ہے۔ ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ آج پشاور میں مگر یہ نہیں ہوا۔ صبح تو ماں معمول کے مطابق خوش تھی، اس نے محبت سے ، بہلا کر، اپنے پھول سے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کیا تھا۔ اس کے تصور میں ان کی اسکول سے واپسی کا وہ منظر بسا رہا ہوگا جو روز ہی اسے بے پایاںخوشیاں دیتا تھا۔ بّچے اسکول سے واپس آئیں گے، کیا کھائیں گے۔ اسکول میں ایک تقریب تھی، یا امتحان تھے ، بچوں نے وہاں کیا کیا ہو گا؟ گھر آکر تفصیل بتائیں گے۔ ابھی وہ ان ہی خیالات میں مگن، ان ہی سوچوں میں گم تھیں ، ابھی بچوں کو گھر سے گئے تھوڑا سا وقت ہی گزرا ہو گا کہ اندوہناک خبریں آنی شروع ہو گئیں، اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے، بچوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ فائرنگ کی گئی ہے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے ان بچوں کی مائوں کے دل پر کیا گزر تی رہی ہوگی۔ سب ہی کے دل بے قرار ہوگئے ہوں گے ۔ سب ہی بے کل ہو گئی ہوں گی۔ کیا بے کلی سی بے کلی ہو گی۔ اسکول کی وین تاخیر سے آنے پر جس ماں کا دل لمحہ لمحہ بے چین رہتا ہو، سکون بّچے کے گھر آجانے پر ملتا ہو، اتنی خوفناک صورتحال میں اسے کہاں چین آسکتا تھا۔ مگر وہ کیا کرتی، اسکول تک آئی، راستے میں روک دی گئی۔ ابھی آپریشن جاری تھا، بچے ابھی یرغمال بنے ہوئے تھے، فوج صورتحال کو سنبھالنے میں مصروف ہے۔ بّچے خطرے میں تھے، مگر ماں کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ بے چینی میں اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی ، سنتِ ہاجرہؓ پر عمل کر رہی تھیں۔ اور اپنے بّچوں کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی۔ سب مائوں کے کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ کس لاڈ سے انہوں نے ان بچوں کو پالا ہے، کیا کیا خواب ان کے بارے میں دیکھے ہیں۔ بڑا ہو کر یہ بنے گا، وہ بنے گا۔ فوج میں جائے گا، ملک کی حفاظت کرے گا، ڈاکٹر بن کر لوگوں کا مسیحا بنے گا۔ جب دھند چھٹی، معاملات کچھ قابو میں آئے تو کئی مائوں کے خواب چکنا چور کر دئے گئے تھے، ان کی گود اجاڑ دی گئی تھی۔ ظالموں نے معصوم بچوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔بچوں پر اندھادھند گولیاں برسا ئی گئی تھیں، ان کا پیچھا بھی کیا گیا، درندہ تھے جو شکار کا پیچھے بھاگتے ہیں۔ چن چن کر ان پھولوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے نو عمر، معصوم نو نہالوں کو ظالموں نے خون میں نہلا دیا۔ انہوں نے لمحہ بھر کو بھی نہیں سوچا کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور؟ یہ تو کسی آپریشن میں شریک نہیں تھے۔ انہوں نے تو کسی چڑیا کو بھی کبھی نہیں مارا۔ انہیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ مگر وہ کیوں سوچتے؟ ظالم کہیں سوچتا ہے؟ دہشت گرد کے پاس دل کہاں ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی کہاں ہوتا ہے سوائے دہشت گردی کے، معصوم لوگوں کو خون میں نہلانے کے سوا انہیں کیا آتا ہے۔
اس قوم پر ایک اور سانحہ گزر گیا۔ پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ پورا ملک ہی سوگ منا رہا ہے، یہ ہے بھی پورے ملک کا دکھ۔ اس ملک کی قسمت میں دکھ سہنا ہی رہ گیا ہے، ہر کچھ دن بعد، انتہا پسند جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، لوگوں کو ، بے گناہوں کو، معصوموں کو، خون میں نہلا دیتے ہیں۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ بڑا سوال ہے، جواب جس کا کسی کے پاس نہیں۔ انٹیلیجنس کی ناکامی؟ بلا شبہ۔ مگر کیا یہ کہہ دینا کافی ہے؟ شاید نہیں۔ معاملات کو اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی سے، ذمہ داری سے دیکھنا ہوگا۔ یہ کون لوگ ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر ، کے سربراہ نے بتایا کہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ کہاں سے ان دہشت گردوں کو ہدایات دے جا رہی تھیں، کون لوگ ان کے پیچھے تھے۔ مگر انہوں نے تفصیل نہیں بتائی، تفصیل تو کیا، انہوں نے اشارۃً، کنایتاً بھی کچھ نہیں بتایا۔ کیا انہیں قوم کو اعتماد میں نہیں لینا چاہئے تھا؟ یہ نہیںبتانا چاہئے تھا کے اس سانحہ میں کون ملوث ہے؟ کس نے اس قوم پر قیامت ڈھادی؟ مگر انہیں تو اس سارے واقعہ کے بعد، اسکول انتظامیہ کے حوالے کرنے کے بعد، پریس کانفرنس تک یہی پتہ نہیں تھا کہ آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل کہاں ہیں۔ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ عین اسی وقت یہ خبر آئی کہ اُس بے چاری کو ظالموں نے زندہ جلا دیا تھا۔ کون انسان کسی کو زندہ جلاتا ہے۔ یہ تو شدید دشمنی میں بھی کم ہی ہوتا ہے۔آئی ایس پی آر نے تو اس سفّاک کارروائی میں ملوث عناصر کی نشاندہی نہیں کی، مگر کہا جاتاہے کہ طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ ظلم ڈھایا ہے، انہوں نے میرے معصوم بچّوں کو ہلاک کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو بھی اتنا تو بتا ہی دینا چاہئے تھا، اگر ایسا ہی ہے تو۔ اور اگر اس قابل صد مذمت کارروائی میں کوئی اور ہاتھ ملوث ہے تو اس کو بھی جلد از جلد قوم کے سامنے بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے قوم کے، غمزدہ مائوں کے ، میرے دکھ تو کم نہیں ہونگے، کچھ اشک شوئی شاید ہو جائے۔ دکھ تو تب کم ہو نگے، جب ان ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہیں عبرتناک سزا دی جائے گی۔ یہ میرے ملک کے مستقبل پر حملہ ہے، ہمیں اس حملے کے اثرات کم کرنے کے لئے بھی قومی سطح پر کام کرنا ہوگا، بچوں کے ذہن سے، ان کے والدین کے ذہن سے خوف دور کرنے کے لئے مؤثر اقدامات، قومی سطح پر کرنا ہو ں گے۔ یہ کام جتنی جلد ہو جائے اچھا ہے۔
تازہ ترین