• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سقوط مشرقی پاکستان کو 42سال گزرچکے ہیں۔ اس دوران حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے۔ بنگلہ دیشی قیادت کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بارے میں غیر جانبدار مصنفین کی درجنوں کتابیں بھی سامنے آئی ہیں اور خود بھارتی مصنفین اور سابق آرمی چیفس سمیت گھر کے بھیدیوں نے 1971میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اور جارحیت کو بے نقاب کیا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے بعض کالم نگاروں کو بھارت کو بری کرنے اور پاکستان اور پاکستانی افواج کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کوئی ایسا ٹاسک ملا ہےکہ وہ عالمی و بھارتی میڈیا کی گواہی کو نظر انداز کرکے اپنے قلم کی توپوں کارخ پاکستان کی طرف کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ 14دسمبر2014کے روزنامہ جنگ میں کالم نگار محمد اظہار الحق نے بھی اسی طرز استدلال کواستعمال کیا ہے۔
ان کی دلیل کے مطابق جنرل ڈائرہیرو تھا اور جلیانوالہ باغ میں شہید ہونے والےحریت پسند اسی قابل تھے کہ ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑادیئے جاتے ۔ میجر ہڈسن اس لئے ٹھیک تھا کہ محمد تغلق نے بھی یہی کچھ کیاتھا۔ برطانیہ کو ہندوستان کو غلام بنانے کا اس لئے حق تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین دیانتدار اور ہندوستان کے اس وقت کے حکمران عیاش تھے ۔ بھارت کو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا حق تھا کہ قائد اعظم نے زبان کا مسئلہ پیدا کیا اور پاکستانی بیوروکریسی اور سیاست دانوں نے غلط اقدامات کئے ۔بلاشبہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔لیکن اتنے بے حس بھی نہ ہوجائیں کہ برطانیہ کو ہندوستان کو غلام بنانے اور بھارت کو مشرقی پاکستان میں پانچ لاکھ فوج داخل کرکے پاکستان کو توڑنے کا کھلا لائسنس دے دیں۔ بھارت کے 608اضلاع میں سے 250اضلاع میں علیحدگی کی تحریکیں چلتی ہیں۔ متوازی حکومتیں قائم ہیں۔حکومت سے شدید ترین شکایات ہیں۔ بدترین محرومیاں ہیں۔ تو کیا پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ وہاں حملہ کردے یا آج جس طرح بلوچستان یا بعض علاقوں میں محرومیاں موجود ہیں۔ تو کیا بھارت یا کسی ملک کا یہ استحقاق ہے کہ وہ وہاں حملہ آور ہوجائے۔
جناب محمد اظہارالحق صاحب نے اپنے کالم تلخ نوائی مورخہ 14دسمبر میں سقوط ڈھاکہ کے حوالہ سے تجزیہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیرمحترم سید منورحسن صاحب کی سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے تحریرکیا کہ:’’ جن کے منہ کو خون لگ چکا تھااور جن کو قتل عام کا کھلا لائسنس دیاگیاتھاوہی آج پارلیمانی جمہوریت کی بجائے جہادو قتال کی بات کررہے ہیں‘‘۔ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑی۔مکتی باہنی(جسے بھارت نے بنایاتھا)اورخود بھارتی فوج کا مقابلہ کیا بھارت کی فوج کی بجائے پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا۔ دفاع وطن کیلئے ہزاروں قیمتی جوانوں کے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔اورآج بھی جو پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں سزائے موت اور پھانسیوں کا سامنا کرر ہے ہیں ان کے بارے میں کسی ثبوت و شواہدیا کسی دلیل کے بغیر یہ جملے تحریر کردیئے کہ جن کے منہ کو خون لگ چکا تھا…کس کا خون؟یہ الزام تو ان پر شیخ مجیب الرحمن اور اس کی پارٹی نے بھی نہیں لگایا(اس وقت مقدمات کا الگ پس منظر ہے)1971میں جب شیخ مجیب الرحمٰن برسراقتدار آئے تو ان کی حکومت نے جماعت اسلامی پر صرف پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا الزام لگایا۔ لیکن قتل اور جنگی جرائم کے الزامات عائد نہیں کیے ۔پاکستانی افواج کا ساتھ دینے کے الزام کے تحت مقدمات قائم کرنے کیلئے Collaboraters Orderجاری کیا۔ اس کے تحت24جولائی 1972ء کو ایک لاکھ افراد گرفتار ہوئے۔ 37471پر الزامات عائد کرکے باقیوں کو بری کردیاگیا۔ان37471میں سے 34623کو عدم ثبوت کی بناپر عدالتوں نے بری کردیا۔ صرف2848پر مقدمات قائم ہوئے۔ ان میں 752کو سزائیں ملیں ۔ انہیں بھی نومبر73 میں عام معافی کے اعلان کے ساتھ رہا کردیاگیا۔
جنہیں سزائیں ملیں ان میں بھی جماعت اسلامی کا کوئی رہنما شامل نہیں تھا۔جن کے خلاف 40سال بعد مقدمات قائم کئے گئے ان پر ان 40سالوں میں ایک دن بھی قتل ، عصمت دری، جنگی جرائم کا الزام نہیں لگایاگیا۔ نہ عوامی لیگ نے ،نہ مجیب الرحمٰن اور حسینہ واجد نے نہ سیکولرمیڈیا نے اور نہ ہندو میڈیا نے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ جماعت اسلامی کی سیاسی حیثیت کو کبھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے وہاں کے انتخابات میں حصہ لیا،ممبران اسمبلی بنے۔ آج جن پر سیاسی وجوہات اور بھارت کے ایماء پر مقدمات بنے ہیں وہ وزیررہے ۔ محترم پروفیسر غلام اعظم صاحب مرحوم کی شہریت کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے بحال کیا۔ 1980میں حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر جدوجہد کی۔ 96-94میں حکومت کے خلاف جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر تحریک چلائی1991 میں اپنی حکومت کے قیام کے لئے عوامی لیگ نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا۔ وزارتوں کی پیش کش کیں۔ان تمام مراحل میں جماعت اسلامی کے رہنما نہ قاتل تھے نہ جنگی جرائم کے مرتکب ۔2001ءکے انتخابات میں جب جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا۔ اور300کی اسمبلی میں عوامی لیگ کی وجہ سے خالدہ ضیاء کو 20%زیادہ ووٹ ملے ۔ تو یہ جرم عوامی لیگ کے نزدیک ناقابل معافی بن گیا۔ مقدمات قائم ہونے کی وجہ ایک مرتبہ پھر بنگلہ دیشی عوام میں اسلام اور پاکستان کی محبت ہے۔ جب ڈھاکہ کے اسٹیڈیم میں پاکستان کے پرچم لہرائے گئے اورپاکستانی ٹیم کو بھارتی ٹیم کے مقابلے میں ہوم گراؤنڈ سا جوش و خروش ملا تو بھارت اور حسینہ واجد کے ہاں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔
گزشتہ سالوں میں سقوط مشرقی پاکستان کے حوالہ سے جو کتابیں سامنے آئی ہیں ان میں سے چند اہم ہیں۔مثلاً اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شاکی کتاب جس میں اس نے بتایا کہ اندرا گاندھی نے بلا کر مجھے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔اور یہ دسمبر71ء سے کئی ماہ پہلے کی بات ہے۔2۔کرنل شریف الحق دہم کی کتاب- Untold Factsیہ بنگالی آفیسر تھے۔ جنہوں نے پاکستانی فوج سے راہ فرار اختیار کی بھارت پہنچے۔ مکتی باہنی کے بانیوں اور اس کی تشکیل و تنظیم کرنے میں سر فہرست رہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز’بیراتم‘ دیا ۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مکتی باہنی بھارت نے بنائی ہم کلکتہ میں اس کوتیارکررہے تھے۔ بھارت کے جنرل اوبان سنگھ اس کے انچارج تھے ۔ہم نادانستہ بھارتی کھیل کھیل رہے تھے۔اور یہ بنگلہ دیش کی آزادی نہیں بھارت کی غلامی کی جنگ تھی۔3۔بھارتی بریگیڈیئر رندھیر سنگھ کی کتاب ’’سولجر ودڈگنٹی‘‘جس میں اس نے لکھا کہ ہم نے ہندوؤں کو پاکستانی فوج کی وردیاں پہنا کر جرائم کروائے تاکہ پاکستانی فوج بدنام ہو۔4۔شرمیلا بوس کی کتاب ’’ڈیڈ ریکوننگ‘‘ اس نے پوری تحقیق کے بعدلکھا کہ پاکستانی فوج پر قتل عام کے الزام جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور مجھے بنگلہ دیش کے کسی حصہ سے اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔یہ کلکتہ یونیورسٹی کی ہندو پروفیسر ہیں5۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر۔ ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب شکست آرزو۔ جس میں مکتی باہنی کے غیر بنگالیوں ہی نہیں خودمحب وطن بنگالیوں پر بدترین مظالم کی آپ بیتی اور جگ بیتی بیان کی گئی ہے۔6۔مجیب الرحمن کے قریبی ساتھی عبدل مومن چوہدری کی کتاب’’30لاکھ کے افسانے کے پیچھے‘‘جس میں اس نے جھوٹی داستانوں کا پردہ چاک کیاہے۔ حوالے تو اس کے علاوہ بے شمار ہیں لیکن میں طوالت کے ڈر سے ان پر ہی اکتفا کرتاہوں۔اظہارالحق صاحب کی یہ زیادتی ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی جیسی محب وطن۔ پاکستان کے لئے ہمیشہ قربانیاں دینے والی۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والی ۔اپنے اندر جمہوری اقدار کے لحاظ سے سب سے آگے موروثی سیاست اور فرد واحد کی پارٹی آمریت کے ماحول میں صحیح اصولی سیاست کرنے والی ۔ کراچی ۔KPKسمیت ہر جگہ کرپشن سے پاک گڈگورننس کا تاریخی ریکارڈ رکھنے والی۔ جماعت پر ’’جن کے منہ کو خون لگ گیا ہے، جنہیں قتل عام کا لائسنس دیاگیا‘‘ جیسے انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے۔ اب ان کی صحافتی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کریں کہ جماعت اسلامی نے کہا ں قتل عام کیا(میں نے واضح کیا ہے کہ 40سالوں میں یہ الزام ان پر مجیب اور عوامی لیگ نے بھی نہیں لگایا)اور کس کا خون جماعت اسلامی کے منہ لگاہے۔ جہاد و قتال فی سبیل اللہ اور دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بارے میں جماعت اسلامی کے موقف کی ترجمانی ، کسی ایک مقرر کی کسی ایک تقریر کے کسی ایک سیاق و سباق سے ہٹے ہوئے جملہ سے نہیںہوتی۔
اس کے لئے جماعت اسلامی کا دستور، لٹریچر،مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اور جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی قراردادیں۔ سب کچھ موجود ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی ہر قسم کی بدترین مخالف ہے۔ ہمارے فاضل کالم نگاروں کوکراچی کی دہشت گردی بوری بند لاشوں ، ٹارگٹ کلنگ ، قبضوں اور بھتوں کے لئے قتل عام پر لکھنے کی توفیق اور جرأت نہیں ہوتی۔ لیکن وہ جماعت اسلامی جیسی محب وطن ،پابند آئین وقانون سیلاب زدگان ، زلزلہ زدگان ، مصیبت زدگان کی بے لوث خدمت کی تاریخ رکھنے والی جماعت کے خلاف بلا ثبوت ، بلاجواز الزامات لگانے اور سخت ترین زبان استعمال کرکے نجانے کس کو خوش اورمطمئن کررہے ہیں۔کم از کم اپنے ضمیر کو نہیں ۔میں توقع رکھتا ہوں کہ اظہارالحق صاحب۔ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے حق کا اظہارکریں گے اور اپنے الفاظ کی وضاحت میں ثبوت دیں گے یا الفاظ واپس لیں گے۔
تازہ ترین