جہاں ایک طرف پاک افغان تعلقات کے بارے میں پرامید ہونے کی وجوہات موجود ہیں، وہیں بدقسمتی سے اسی طرح کی خوش گمانی پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے ظاہر نہیں کی جاسکتی۔ درحقیقت نریندر مودی حکومت کے طرز عمل نے طویل عرصے سے ان کشیدہ تعلقات میں درپیش مسائل میں نمایاں اضافہ کردیا ہے۔
بی جے پی رہنما نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت سے متعلق پاکستان میں پائے جانے والے بہت سے خدشات کو تقویت مل رہی ہے۔ مودی کے ابتدائی خوش آئند اقدامات یعنی وزیراعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنا ایک جھوٹی صبح نو ثابت ہوئی۔
تب سے دہلی نے بودی بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ تمام مذاکراتی عمل بند کرتے ہوئے پوری لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر گولہ باری اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کردی اور اپنی پاکستان مخالف بیان بازی میں اضافہ کردیا۔ ستمبر اور اکتوبر میں سرحد پار فائرنگ غیر معمولی طور پر انتہائی شدید ہوگئی جس کے دوران بھارت نے تقریباً نصف خلاف ورزیاں ورکنگ باؤنڈری پر کیں۔دھمکی کی طرح کے اس جارحانہ روئیے کا مشاہدہ بھارت کے وزرائے دفاع اور داخلہ کے بیانات میں بھی ہوا جنہوں نے پاکستان کو تکلیف میں مبتلا کرنے کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ بھارت اتنا طاقتور ہے کہ بھرپور جواب دے سکتا ہے۔کھٹمنڈو میں ہونے والے مصافحے سے اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بلکہ الٹا سارک کانفرنس میں اور اس کے بعد وزیراعظم مودی کے روئیے نے اس تاثر کو گہرا کیا کہ بھارت طاقت سے پاکستان کے ساتھ اپنے روابط کی حدود و قیود تبدیل کرنا چاہتاہے، خاص طور پر وہ کشمیر کو مذاکراتی میز سے ہٹانے کی کوشش میں ہے۔یہ صورتحال پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اسلام آباد نے پہلے ہی یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ مذاکرات کی بحالی کیلئے کسی طرح کی پیشگی شرائط پر راضی نہیں ہوگا۔ نہ ہی وہ کشمیر کو دو طرفہ ایجنڈے سے خارج کرنے کو قبول کرے گا۔ مودی کی سخت گیر روش نے پاکستان میں اس اتفاق رائے کو مزید تقویت بخشی ہے کہ بھارت کے اجارہ دارانہ روئیے کو مسترد اور اس کی مزاحمت کرنا ہوگی۔یہ پیش گوئی کرنے کے لئے دانشور ہونا ضروری نہیں کہ اگر وزیراعظم مودی نے ریاستی انتخابات میں ہیراپھیری کرکے سری نگر میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے ، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہے کو ختم کرنے، اور ریاست کو تین حصوں جموں، لداخ اور کشمیر میں تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں کشمیر کے عوام کا انتہائی نوعیت کا ردعمل سامنے آئے گا جو ایک اور شورش کو جنم دے سکتا ہے۔اگر ایسا ہوا تو بھارتی حکام بلاشبہ اسےکچلنے کے لئے طاقت کا استعمال کریں گے جس طرح وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آئے گا اور پاکستان اور بھارت کے مابین تمام تر متعلقہ خطرات کے ہمراہ ایک اور بڑے بحران کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
بھارت کے اس روئیے کی وجہ محض یہ نہیں کہ بی جے پی کی حکومت میں ہر طرف خاص طور پر مودی کے ارد گرد راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے انتہا پسند پائے جاتے ہیں بلکہ بعض مغربی طاقتوں کی جانب سے بھی دہلی کی سیاسی پشت پناہی کرکے اور بھارت کو فوجی سپلائیز اور نیوکلیئر و اسٹرٹیجک تعاون فراہم کرکے دانستہ یا کسی اور طرح اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
واشنگٹن کو گمان ہے کہ ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کیلئے بھارت علاقائی مدمقابل کا کردار ادا کرسکتا ہے اور کرے گا، لیکن یہ مفروضہ بھی ایک اور اسٹریٹجک غلطی ثابت ہوگا جو امریکہ کی باقی دنیا میں کی گئی غلطیوں کی ہمسری کرسکتا ہے۔آج دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھارت اپنی طاقت میں اضافے کا تاثر یہ دینے کی کوشش کررہا ہے کہ اس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کا سدباب کرنا ہے۔ تاہم بھارت کی فوجی صلاحیتوں بری، بحری اور فضائی کا بڑا حصہ مسلسل پاکستان کے خلاف بروئے کار لایا جارہا ہے۔
بھارت کے ہتھیاروں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان دفاع کی صلاحیت برقراررکھنے اور بوقت ضرورت کسی ممکنہ بھارتی حملے، بشمول اچانک حملے جس کی بات نئی دہلی کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن میں کی گئی ہے، کا جواب دینے کیلئے مناسب اقدامات کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ یقیناً پاکستان بھارت کی روایتی ہتھیاروں کی توسیع کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نہ ہی اسے بھارت کے ساتھ روایتی اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونے کا سوچنا چاہئے ۔ اس کا ردعمل لازماً دفاعی اور موثربہ لاگت ہونا چاہئے۔پاکستان کی روایتی ذرائع سے اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت کا تحفظ نہ صرف پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ ایک ایسا مقصدہے جس کی عالمی برادری کو بھی تمنا کرنی چاہئے۔ ایک مناسب روایتی توازن کے بغیر بھارت پاکستان تنازع بہت تیزی سے خوفناک ایٹمی سطح تک بگڑ سکتا ہے۔بدقسمتی سے بھارت کے نئے اسلحہ سپلائرز اور اسٹریٹجک پارٹنرز نے اس تقاضے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔ روایتی طریقوں میں بڑھتے ہوئے عدم تناسب کی وجہ سے پاکستان جامع سد جارحیت (Full Spectrum Deterrence ) کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا جس میںتدبیری نیوکلیئرہتھیاروں کی تیاری بھی شامل ہے۔ اگر بھارت نے اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم نصب کیے تو پاکستان مناسب سد جارحیت برقرار رکھنے کے لئے اپنے جوہری صلاحیت والےمیزائلوں کی تعداد دوچند کرنے کی ضرورت محسوس کرے گا۔پاکستان نے پہلے ہی بھارت کی جنگ چھیڑنے والی اشتعال انگیز ڈاکٹرائن (جنگی نظریہ) سے تدبیری سطح پر پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ڈاکٹرائن ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ محدود روایتی محاذ آرائی کا تصور پیش کرتا ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان جامع سدجارحیت کے لئے ڈلیوری سسٹمز اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے ہلکی شدت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز کرنے پر مجبور ہوا جن کا مقصد کولڈ اسٹارٹ سے نمٹنا اور ایٹمی استحکام بحال کرنا ہے۔
جنوبی ایشیا میں جوہری خطرے کا مسئلہ حل کرتے ہوئے مغربی پالیسی سازوں اور ماہرین کی کوششیں محض پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی ’’حفاظت‘‘ پر مرکوز رہیں۔ جوہری سد جارحیت کی اعتباریت کا اہم مسئلہ مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا۔جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے تو اس بات کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان کا اسلحہ اور جوہری موادسخت کنٹرول میں ہیں اور اس کے حفاظتی انتظامات کا مفصل نظام دیگر ایٹمی اور جوہری صلاحیت کے حامل ممالک بشمول بھارت کے سسٹمز سے بہت بہتر ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری سد جارحیت کی اعتباریت کو برقرار رکھنے کا انحصار ان کے متعلقہ ایٹمی اسلحے کی موجودہ و ممکنہ جسامت اور معیار پر اور پیشگی حملے کی صورت میں ان کے بچنے کے امکان پر ہوگا۔ جہاں تک حریف ایٹمی ممالک کے درمیان تعلقات کی بات ہے تو ان میں ہمیشہ جارحانہ اکساہٹ اور پیشگی حملے سے متعلق دفاعی پیش بندی کا پہلو موجود ہوتا ہے۔جوابی حملے کی صلاحیت کسی بھی فریق کے خطرناک قدم کے خلاف ضمانت ہوتی ہے۔اسٹریٹیجک طور پر بھارت کے مسلسل پھیلاؤ کے باعث پاکستان ،اگر اس نے اب تک اس کی منصوبہ بندی نہیں کی ، دوسرے حملے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے اپنے اسلحے میں اضافے اور متعدد اقدامات کرنے پر مجبور ہوجائے گا جن میں ہتھیاروں کا بکھراؤ اور بھیس کی تبدیلی اور محفوظ لانچ سائٹس شامل ہیں۔یہ بالکل واضح اور درپیش خطرہ ہے جس کا بین الاقوامی طور پر بڑی حد تک ادراک نہیں کیا گیا ہے۔ برصغیر کے کشیدہ ماحول میں جہاں کسی دہشت گرد حملے یا ایک اورکشمیری چنگاری سے بحران جنم لے سکتا ہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان نئی مفاہمت کی اشد ضرورت ہے۔سردست عسکری سطحوں اور تعیناتیوں یا جنگی نظریات پر ایسی کوئی مفاہمت موجود نہیں جو کسی بڑھتے ہوئے بحران کو بے قابو ہونے سے روک سکے۔
سرد جنگ کے دوران دو مرکزی ایٹمی کرداروں نے بھی ان مسائل پر ہاٹ لائنز اور دیگر بحرانی مواصلاتی طریقہ کار کے ذریعے کچھ افہام و تفہیم کو ضروری جانا تھا۔لیکن یہاں تو دونوں ممالک میں فاصلے کا تعیش موجود نہیں، لہٰذا بھارت اور پاکستان کی فوجی اور ایٹمی ڈاکٹرائنوں کی وضاحت کرنے اور سیاسی و تکنیکی بند باندھنے کیلئے مکالمے اور باہمی مفاہمت کی بہت ضرورت ہے تاکہ کسی غلط فہمی یا غلطی کے سبب بھی کوئی تنازع جنم نہ لے۔ان اہم مسائل کو حل نہ کرنا غیرذمہ دارانہ ہوگا۔ یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ عالمی برادری نے آخر کیوں اس مفاہمت پر زور اور اسے فروغ دینے کے لئے بہت کم کوششیں کی۔ میں پاکستان کے سیکورٹی چیلنج کے اس وسیع تجزئیے کو وہیں سے مکمل کرتی ہوں جہاں سے ابتدا کی تھی۔ اگرچہ پاکستان کو کشیدہ اور غیرمستحکم علاقائی ماحول میں احتیاط سے رستہ بنانا ہوگا ، تاہم ہمارے اہم ترین فوری مسائل اور ان کے حل کی طرح ملک کے اہم مفادات بھی اسی میں پنہاں ہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ تقدیر ایک انتخاب ہے اتفاق نہیں تو پاکستان کی قسمت کو شکل دینے والے عناصر اسی میں موجود ہیں۔ صرف معاشی طور پر مضبوط اور اندرونی طور پر مستحکم اور تحمل مزاج پاکستان کے پاس ہی بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت اور اعتماد موجود ہوگا۔