جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھی قابل تعریف ہیں کہ ہماری سیاسی و دینی قیادت اور ہمارے طاقتور میڈیا نے وطن کے اصل دشمن کو بالاخر دشمن مان لیا۔ گرچہ مختلف مصلحتوں کے تحت یہ نصیحت بھی کی جا رہی ہے کہ قومی یک جہتی کی خاطر سب کو قبول کیا جائے ۔ کسی کے سابقہ فکری یا سیاسی کردار پر انگلی نہ اٹھائی جائے یعنی دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں اور ان کا مقابلہ کرنے والوں کو برابر تعظیم دی جائے۔ برس ہا برس سے جو عناصر ان ظالموں کو اسلام اور پاکستان کی شان کہتے رہے ہیں اور انہیں اپنی نئی نسلوں کے لئے بہادری اور انصاف کے سمبل ظاہر کرتے رہے ہیں ، ان عناصر کو اب بھی فضیلت کے تخت پرمسلط رہنے دیا جائے ۔ یعنی اب ہمیں ایسی سیاست کی پرورش کرنے والوں کا تجزیہ کئے بغیر خوش ہوجانا چاہئے کہ انہوں نے دہشت گرد کو دہشت گرد کہنا منظور کر لیا ہے ۔کیا قومی یک جہتی کو درست فکری بنیادوں کے بغیر، صرف ایک جذباتی ابال کے ذریعے قائم رکھا جا سکتا ہے ؟ اگر ہم اپنی پچھلی ایک صدی کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو لگتا ہے کہ شاعری اور افسانوی کہانیوں کے جادو سے ایک ہجوم کو دیر تک اکسایا جا سکتا ہے ۔ لیکن شاید یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی جذبات کو سیاست میں استعمال کرکے عوام کو ایک قوم نہیں بنایا جا سکا ۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں ۔ اول یہ کہ قومی مملکت کا تصورجغرافیائی سرحدوں کو اٹل بنیاد مانتا ہے اور یہی پاکستان کے وجود کی بنیاد بنی ، جبکہ مذہب میں جغرافیائی سرحدوں کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ دوئم یہ کہ قوم کے تصور میں مذہبی عقائد اور ذات برادری یا قبیلہ کی کوئی اہمیت نہیں جبکہ مذہب میں فرد کی شناختیں ہی یہی دوہیں یعنی قبیلہ اور دین ۔ سوئم یہ کہ جدید مملکت ایک مدافعتی تصور ہے یعنی ایک ایسے انسانی معاشرہ کا تصور ہے جو ارد گرد کے معاشروں کی مداخلت سے محفوظ رہنے کے لئے متحد ہوتا ہے ، اور اسی تصور کے تحت پاکستان کی مسلح افواج کا قیام ہوا ، جبکہ مذہبی ریاست ارد گرد کے معاشروں کو دائرے میں لانے کے لئے آگے بڑھتی ہے اور ایک عالمی مذہبی معاشرہ بنانے کا عزم لے کر سرحدوں کو باطل کر دیتی ہے ۔ غالباً یہی سبب ہے کہ وطن عزیزمیں جیسے جیسے مذہبی جذبات کی سیاست غالب آئی ہے ہم قومی معاملات سے کہیں زیادہ امت مسلمہ کے لئے بیقرارہوتے ہیں ۔ ۔لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مذہبی تعلیمات کے بنیادی ماخذ ہمیں کسی سیاسی نظام کا پابند نہیں کرتے ۔ لہذا مذہبی سیاست دا نوں کے پاس قومی ریاست کا تصور مسترد کرنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ، نہ ہی ہمارے لئے اس کو اپنانے میں کوئی رکاوٹ ہے ۔ تقریباً سبھی عرب ممالک مسلم امہ کی بجائے قومی ملکی ریاست کے نظام پر قائم ہیں ۔ مصر، الجزائر، شام ،عراق وغیرہ تو جدید آمریت اور قومی ریاست کے تصور پر قائم ہیں جبکہ ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے مسلم عوام کو جدید جمہوریت میں بھی کوئی دقت نہیں۔ ہمیں ایک قومی فوج ایک قومی بیوروکریسی ایک قومی سیاست اور ایک قومی نظا م تعلیم کی ضرورت ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ انکے سہولت کاروں کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کہتے ہوئے ہماری قیادت کی زبان پھولنے لگتی ہے اور لفظ حلق میں اٹکتے ہیں ۔ مملکت کی نظر میں کون کون سہولت کار ہے ، یہ امر لوگوں کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ شاید یہ سہولت کاروں کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے ۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی جڑوں کو تلاش کرنے اور قوم کو ان جڑوں کے خلاف منظم کرنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ۔گرچہ یہ بہت تکلیف دہ اور مشکل ہے ، تاہم یہ اعتراف ہمیں جلد یا بہ دیر کرنا ہی پڑے گا کہ طالبان القاعدہ اور داعش جیسے عفریتوں کی جڑیں ہمارے کم علم اور متعصب مذہبی انتہاپسندوں کی تعلیمات میں ہیں جو اپنی کم مائیگی کا ادراک و اعتراف کرنے کی بجائے مسلم عوام و خواص کو خود پسندی کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو ہمیں آج کی دنیا کے انسانی حقوق و فرائض سے نفرت پر اکساتی ہے ۔ آج پاکستان اور مسلم دنیا اپنے تمام تر وسائل کے باوجود اگر بربادی کے صحرا میں بھٹک رہے ہیں تو اس کا سبب کوئی دشمن نہیں بلکہ ہمارے وہ استاد ہیں جنھیں ہم زندگی کے ہر معاملہ میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ سادہ دل ’’رہنما‘‘ نہیں جانتے کہ انکے مذہبی جذبات عوام میں کیسے انتہا پسندی اور قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ قومی قیادت ان سادہ دل لوگوں کے سماجی رول کی حدیں مقرر کرے۔ اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا اور رائے سازی کے ہر فورم کی سخت نگرانی کے لئے سول حکومت کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت بھی مستعد اور باخبر رہے۔ یہ اسلئے کہ ہماری منتخب حکومت کے لئے شاید کچھ منہ زور گھوڑوں کو لگام دینا مصلحت کے خلاف لگے ۔