سانحہ پشاور عوام میں نہیں اہل حکومت اور سیاست کے لئے ’’آئی اوپنر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسا ہی ہوا قوم اپنے مصائب فراموش کر کے متحد ہو گئی۔ ایک ایک کر کے دہشت گردی کے تمام واقعات پر صبر و تحمل برد باری کے تمام بند ٹوٹ گئے کہ وزیراعظم نے بھی یہ کہہ کر ’’شہید بچوں کے خون کے ایک ایک قطرہ کا حساب لیں گے قوم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب نے دونوں ہاتھ بلند کئے اور جلد سزائیں دینے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی سب نے حمایت کی۔ چند ایک نے تحفظات کا اظہار کیا مگر اتنی بلند آوازمیں نہیں جیسا کہ سابق صدر زرداری نے اسے شروع کر دیا۔ تحریک انصاف نے بھی ’’اگر مگر‘‘ کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی خبر ہے کہ حکومت نے بھی نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پُر عزم ہی نہیں دن رات ’’اقدامات‘‘ کو حتمی شکل ہی نہیں دے رہے بلکہ قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے بیانات بھی دیئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ’’سیاسی اتحاد‘‘ کا ویسے مظاہرہ نہیں ہو رہا جس کی آس دلائی گئی تھی یا کم از کم یہ تاثر عوام میں ضرور ابھرا تھا کہ قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت اور سیاستدان فوج کے ساتھ ’’ایک صفحہ‘‘ پر آ گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کمیٹیوں کے قیام کی حد تک حکومتی پارٹی بڑی فعال اور متحرک ہے لیکن سیاسی اختلافات کم نہیں ہوئے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے دھرنا اور تحریک ختم کرنے کے اعلان کا قطع نظر اس کے ایسا کس کے اشارے پر کیا گیا سب نے خیر سگالی کے اس مظاہرہ کا خیر مقدم کیا تھا اور جناب وزیراعظم نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار کو ہدایت کی تھی کہ تحریک انصاف کے تحفظات دور کئے جائیں ابھی تک ڈیڈ لاک موجود ہے۔ جب تحریک انصاف کے علاوہ پیپلز پارٹی سمیت کئی اور جماعتوں نے ’’دھاندلی‘‘ کی بات کی ہے تو اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے سے کون سا آسمان گر پڑے گا۔ عوام نے اتحاد کا مظاہرہ تو کر دیا مگر بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ’’عذاب‘‘ بن گئی ہے لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ گیس سلنڈر منہ مانگی قیمت پر بک رہے ہیں اور انتظامیہ کو شاید دھند میں کچھ نظر نہیں آ رہا۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی تو ہوئی ہے لیکن اس کے اثرات نیچے تک مرتب نہیں ہو رہے اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔ یہ درست کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے عوام حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور اس فیصلہ کن جنگ میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرے گی لیکن حکومت کا یہ فرض ہے کہ عوام کے مصائب کے تدارک پر بھی توجہ دے اور آپس میں بھرپور مشاورت کر کے ایسا لائحہ عمل مرتب کرے کہ دہشت گردی ختم یا کم ہوتی نظر آئے۔ کمیٹیوں کا قیام سر آنکھوں پر لیکن یہ سب کو ’’اَن بورڈ‘‘ کرنا ہے تو ان کمیٹیوں میں دوسری جماعتوں کے ارکان کو بھی شامل کیا جائے۔ ایک ہاتھ سے سب کو ہانکنے کی بات درست نہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں کہ 90فیصد دینی مدارس کسی دہشت گردی میں نہ ملوث ہیں اور نہ ہی ماضی میں کبھی ایسا تھا صرف ایک مخصوص طبقہ ہے جس کی جانب سے مدارس کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ اگر چند مدارس یا لوگ ایسے ہیں جن کی سرگرمیاں قابل اعتراض ہیں تو علماء کرام اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان کے خلاف ضرور اور بھرپور کارروائی کی جائے۔ لیکن ایسے پروپیگنڈہ سے الٹا نقصان ہو گا اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم اور تحریک میں توجہ کسی اور طرف بھی ہو سکتی ہے۔ یہ وقت صرف اور صرف دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہے اور اس کے لئے حکومت اور سیاسی جماعتوں کے قائد کو مل بیٹھ کر ایک جامع اور مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ عوام نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کر کے بال حکومت اورفوج کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو جمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے اسے بھی جمہوری فرض انتہائی احتیاط سے ادا کرنا ہو گا کہ خبر تو ’’جنگل میں آگ‘‘ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ مجھے حکومتی کمیٹیوں اور بیانات پر کوئی اعتراض نہیں کوئی ٹھوس عملی قدم اٹھانے کے لئے کمیٹی ہی بنتی ہے اور پُر عزم بیانات قوم میں حوصلہ بلند کرتے ہیں لیکن اس وقت قوم جس ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ عملی اقدامات فوری اور جلد اٹھائے جائیں اور اس کی نگرانی کے لئے جو اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی جائے اس میں حکومتی، عسکری قیادت کے علاوہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کو بھی نمائندگی دی جائے اور اس حوالے سے انتہائی احتیاط برتی جائے کہ اگر آپس میں کوئی اختلاف بھی ہو تو اسے اپنے طور پر ہی حل کر لیا جائے اسے ’’خبر‘‘ بنا کر طشت از بام نہ کیا جائے۔ لیکن یہ بات ’’وقت کی آواز‘‘ ہے کہ اب دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھانا ہو گا کہ عوام کا فیصلہ ہے اور یاد رکھئے جب عوام کوئی فیصلہ کر لیں تو اسے پورا کروانے کی قوت بھی رکھتے ہیں اور وہی ’’عوامی فیصلہ‘‘ حرف آخر ہوتا ہے!!