• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ سندھ کی ملازمتوں میں دیہی اور شہری کوٹہ 1973 ء کے آئین کے ذریعے متعارف کیا گیا‘ حقیقت یہ ہے کہ جب کوٹہ سسٹم اور خاص طور پر سندھ میں شہری اور دیہی کوٹہ کے بارے میں کافی حلقوں کی طرف سے شور اٹھا تو میں نے اس سلسلے میں چھان بین شروع کردی ،اس تحقیق کے دوران انکشاف ہوا کہ سندھ کی ملازمتوں میں شہری اور دیہی کوٹہ 1973 ء کے آئین سے پہلے نافذ تھا‘ ان حقائق کے مطابق یہ کوٹہ سسٹم جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دوران نافذ کیا گیا اور اس کا کریڈٹ پختون جنرل رحمان گل کو جاتا ہے جو اس وقت سندھ کے گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے‘ جنرل رحمان گل نے اپنے دور میں کئی اہم کارنامے سرانجام دیئے‘ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان سپر ہائی وے انہی کے دور میں تعمیر ہوا اور اس وقت تعمیر کیے گئے اس سپر ہائی وے کا معیار بہت اچھا تھا‘ سندھ میں 1970ء کے انتخابات بھی ان کی انتظامیہ نے کرائے‘ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں نچلے طبقوں اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کی بہت فکر رہتی تھی اور وہ مسلسل ان طبقوں اور علاقوں کی محرومیاں ختم کرنے کے سلسلے میں اقدامات کرتے رہتے تھے‘ ملازمتوں میں دیہی اور شہری کوٹہ کا نفاذ بھی ان کی اس مسلسل جستجو کا حصہ تھا‘ اس سلسلے میں کی گئی مزید تحقیق کے مطابق انہوں نے سندھ میں یہ کوٹہ اپنے طور پر نافذ نہیں کیا تھا بلکہ سندھ کے مختلف طبقوں خاص طور پر شہری اور دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف طبقوں سے صلاح و مشورے کے بعد نافذ کیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں خاص طور پر سندھ میں اس وقت کے متعدد سینئر افسران سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔ تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنرل رحمان گل نے سندھ کی ملازمتوں میں شہری علاقوں کے لئے 40 فیصد کوٹہ اور دیہی علاقوں کے لئے 60فیصد کوٹہ شہروں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے ان سینئر افسران میں اتفاق رائے ہونے کے بعد نافذ کیا تھا‘ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر افسر اس وقت ایم کیو ایم کے ایک سینئر ایم پی اے کے بڑے بھائی تھے۔ بہرحال اس جستجو کے بعد سندھ کے ایم ایل اے جنرل رحمان گل جو ایک پختون تھے کے حکم سے اس مارشل لاء دور میں سندھ کی ملازمتوں میں یہ کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تاکہ سرکاری ملازمتوں میں سندھ کے تمام علاقوں کے باشندوں کی مناسب نمائندگی ہوسکے۔ اس سلسلے میں یہ طے کیا گیا کہ مندرجہ ذیل طریقہ کار کے تحت سندھ کی ملازمتوں کی خالی اسامیوں پر براہ راست بھرتیاں کی جائیں: (1) 40 فیصد خالی اسامیاں کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لئے مخصوص کی گئیں اور (2) باقی 60 فیصد خالی اسامیاں صوبے کے دوسرے شہروں اور دیہی علاقوں کے امیدواروں کے لئے مخصوص کی گئیں۔ اس سلسلے میں جاری کیے گئے مارشل لاء ریگولیشن / نوٹیفکیشن کے ذریعے مزید وضاحت کی گئی کہ اس طریقہ کار کے تحت مندرجہ ذیل خالی اسامیوں پر براہ راست بھرتی کے ذریعے تقرریاں کی جائیں گی۔ (اے) وہ خالی اسامیاں جو بی پی ایس 16 یا اس سے اوپر کی ہوں گی۔ (بی) بی پی ایس 3 سے 15 تک وہ خالی اسامیاں جس پر تقرر ہونے والے سارے صوبے کی خدمت کرسکیں گے۔ بہرحال اس نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ بھی واضح کیا گیا کہ بہرحال یہ کوٹہ سسٹم مندرجہ ذیل اسامیوں پر کی جانے والی تقرریوں پر نافذ نہیں ہوگا۔
(1)جو ملازمتیں بی پی ایس 1 اور 2 کے تحت آتی ہیں۔ (ان اسامیوں پر تقرریاں مقامی بنیاد پر ہوں گی) اور (2)بی پی ایس 3 سے 15 تک وہ اسامیاں جن پر تقرر کیے جانے والے ان دفاتر میں کام کریں گے جو فقط کسی خاص ریجن یا ضلع سے تعلق رکھتی ہوں گی‘ ان اسامیوں پر فقط ان لوگوں کو مقرر کیا جائے گا جن کے پا س ان علاقوں اور اضلاع کا ڈومیسائل ہوگا۔ حاصل کیے گئے حقائق کے مطابق 1981 ء میں کی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ صوبے اور اس کے مختلف علاقوں کی آبادی مندرجہ ذیل تھی: سارے سندھ صوبے کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ 29 ہزار تھی جبکہ سندھ کے مندرجہ ذیل شہروں کراچی کی 47 لاکھ 76 ہزار‘ حیدرآباد کی 7 لاکھ 45 ہزار اور سکھر کی ایک لاکھ 93 ہزار آبادی تھی۔ اس طرح ان تینوں شہروں کی ٹوٹل آبادی تھی 57 لاکھ 14 ہزار دوسری طرف سندھ کے باقی علاقوں کی آبادی تھی 1 کروڑ 33 لاکھ 15 ہزار‘ اس طرح کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر شہروں کی آبادی سندھ صوبے کی آبادی کا 30.03 فیصد تھی جبکہ سندھ کے باقی علاقوں کی آبادی 69.97 فیصد تھی۔ ستمبر 1993 ء میں حکومت سندھ کے سارے محکموں بشمول خود مختار اداروں / کارپوریشنوں میں ملازمتوں کے جو اعداد و شمار جمع کیے گئے اس کے مطابق ان ملازمتوں میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا تناسب مندرجہ ذیل تھا۔ (1) شہری ڈومیسائل والوں کا تناسب تھا 11 ہزار 298 یعنی 51.71 فیصد‘ دیہی ڈومیسائل رکھنے والے ملازمین کا تناسب تھا 10ہزار 398 یعنی 47.58 فیصد اور دیگر صوبوں کا ڈومیسائل رکھنے والے ملازمین کا 153 یعنی 0.70 فیصد تناسب تھا۔
اس تحقیق کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ جس طرح دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک بشمول پاکستان میں ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں تعلیم کی سطح بہت نیچے ہے‘ اسی طرح یہ بات بھی حوصلہ شکن تھی کہ سندھ میں بڑے شہروں سے دور واقع دیہاتی علاقوں میں بھی تعلیم کی سطح بہت نیچے تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی اور رہی ہے کہ حکومت کی طرف سے بڑے شہروں میں تعلیم کی جو سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں وہ صوبے کے دیگر علاقوں میں تعلیمی سہولتوں سے کافی بہتر تھیں لہذا 1973 ء کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے سیکشن 37 (ایف) میں یہ بات واضح کی گئی کہ ’’ریاست تعلیم‘ تربیت‘ زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے مختلف علاقوں کے عوام کو اس بات کے قابل بنائے گی کہ وہ ساری قومی سرگرمیوں بشمول پاکستان کی سروس میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے بھرپور طور پر حصہ لے سکیں‘ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جو شخص متعلقہ شہری اور دیہی کوٹہ کے تحت امتحانی مقابلے کے ذریعے منتخب ہوتا ہے‘ اس کا کسی بھی زبان‘ ذات‘ رنگ و غیرہ سے بغیر کسی تمیز کے تعلق ہوسکتا ہے‘ حکومت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے یکم جنوری 1993 ء کو وفاقی سول سرونٹس اور وفاقی حکومت خود مختار اداروں‘ نیم خود مختار اداروں‘ کارپوریشنوں کے بی پی ایس 1 سے 22 تک ملازمین کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئیں وہ مندرجہ ذیل ہے۔ : (اے) فیڈرل سروس سرونٹس ‘ پنجاب کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک کا تناسب 60.48 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 67.50 فیصد‘ گریڈ 17 سے 22 تک 8.49 فیصد‘ سندھ (شہری) کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک کا تناسب 10.59 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16تک 9.98 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 9.61 فیصد‘ سندھ (دیہی) کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک کا تناسب 7.33 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 6.17 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 7.69 فیصد‘ این ڈبلیو ایف پی کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک 12.68 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 10.43 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 12.41 فیصد‘ بلوچستان کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک 3.83 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 2.69 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 3.01 فیصد‘ این اے / فاٹا کے ملازمین گریڈ ایک سے 2 تک 2.67 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 1.98 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 3.69 فیصد‘ آزاد جموں و کشمیر کے ملازمین گریڈ 1 سے 2 تک 2.41 فیصد‘ گریڈ 3 سے 16 تک 1.26 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک 1.29 فیصد ہے۔
وضاحت-: میرے پچھلے کالم میں غلطی سے 1956 ء کے آئین کے بجائے 1958 کا آئین شائع ہوگیا ہے۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔


.
تازہ ترین