گزشتہ دنوں پاکستان کی مقننہ نے دستورِ پاکستان میں اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952ء میں ترامیم کا بل کثرتِ رائے سے منظور کیا۔ بعدازاں صدرِ مملکت نے دستخط کیے اور یہ مسودئہ قانون دستور کا حصہ بن گیا۔ یہ ترامیم اب پاکستان کے قانون کا حصہ ہیں۔ مگر پاکستان کی دو مذہبی سیاسی جماعتیں ، اس کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ اصولی طور پر جمہوری پارلیمانی نظام میں مقننہ کو یہ حق ہے کہ وہ ملک کے لئے نظام اور قوانین وضع کرے۔ اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کا بل منظور کیا گیا۔ اب اگر کسی جماعت کو اس سےاختلاف ہے تو اس کے لئے عدالتی جائزے کا راستہ کھلا ہوا ہے اور وہ پاکستان کی عدالت ِ عظمیٰ سے رجوع کرکے اس پر رائے حاصل کرسکتی ہے ،لیکن یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ مذکورہ جماعتیں محاذ آرائی کو بڑھاوا دے رہی ہیںاور مولانا فضل الرحمٰن نے ایک پریس بریفنگ میں یہ مطالبہ تک کر دیاہے کہ صولت مرزا اور اجمل کو بھی تختہ دار پر چڑھایا جائے اور یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کراچی میں ہونے والے ماضی کے آپریشنز کا بھی تذکر ہ بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ابھی جو قانون منظور کیا ہے، اس میں کسی فردِ کا نام نہیں بلکہ ان عناصر کا ذکر ہے جو دہشت گردی کرکے اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہاں کسی کا نام نہیں۔ لیکن اس کے برعکس اکیسویں ترمیم کے مخالفین چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق اپنے ردِ عمل کا اظہار کرر ہے ہیں۔ ابھی راستے ختم نہیں ہوئے ہیں۔ قانونی طور پر عدالت ان ترامیم کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جن دو افراد کو پھانسی پر لٹکانے کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک پر تو ابھی جرم ثابت نہیں ہوسکا ہے اور اس پر مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جبکہ ایک کو عدالتوں سے سزا ہوچکی ہے البتہ عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی کی اپیل سردست زیر التواء ہے اور اس کا فیصلہ آنے تک اس قسم کے بیانات دینا قانون اور عدالتی امور میں مداخلت کے متراد ف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستا ن میں تمام سیاسی جماعتیں مختلف نظریات اور منشور کے ساتھ سیاست کر رہی ہیں لیکن ان پر لسانی، نسلی یا مذہبی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کی دو بڑی حکمران سیاسی جماعتوں کا ذکر کیا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی پر سندھ کی چھاپ ہےجبکہ مسلم لیگ (ن) پر پنجاب کی چھاپ لگا ئی جاتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پر پشتون جماعت ہونے کی چھاپ رہی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں پر موروثیت کا الزام بھی لگتا ہے۔ پاکستان میں نسلی و لسانی تفریق کا اندازہ ہم اِس سے لگا سکتے ہیں کہ حال ہی میں پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت کے رہنما نے عقد ِ ثانی کیا ہے اور ان کی اہلیہ جو ایک ٹی وی چینل کی اینکر ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہیں لیکن وہ اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ میں پشتون ہوں اور ہمارے ہاں پشتونوں میں ہی شادی ہوتی ہے تو میں ان لوگوں سے سوال کروں گا جو دین ِ اسلام کے آفاقی پیغام کے حامل ہونے کے صرف دعویدار ہیں کہ کیا اسلام اس قسم کی نسلی تفریق کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اِسلام اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ باپ کے بعد جماعت کی عمارت بیٹے کے پاس رہے گی یا سیاسی جماعت کی سربراہی ماں اور باپ کے بعد بیٹے یا بیٹی کے نصیب میں آئے گی؟ مجموعی طور پر پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان تو بن گیا لیکن وہ قوم تشکیل نہ پا سکی جس کے لئے یہ وطن بنایا گیا تھا، جبکہ یہ جملہ میں متعدد بار اِنہی صفحات پر تحریر کرچکا ہوں کہ ہمیں اِس سوچ سے بلند ہو کر دہشت گردی جس کاریاست کو سامنا ہے، اس کے بارے میں سوچنا ہوگا، مبینہ دہشت گردوںنے بڑے بڑے محاذوں پر کرائے کےسپاہیوں کی حیثیت سے لڑائیاں لڑی ہیں او ر آج ہماری فوج بھی ان سے برسر پیکار ہے۔ اور اس کے لئے قوم کی وحدت و اتحاد جزوِ لاینفک ہے۔ اگر اِس محاذ پر کمزوری دکھائی گئی تو وطن ِ عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔صرف 16دسمبر2014ء کا واقعہ ہی اِ س آپریشن اور کارروائی کا سبب نہیں بنا بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے وطن عزیز کو جن حالات کا سامنا رہا، یہ اس کا نتیجہ ہے۔
اس لئےاگر مگر کے ساتھ کی جانے والی کارروائیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں۔ آج پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور وہ جماعتیں جو مذہبی تشخص کے ساتھ سیاست کر رہی ہیں انہیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پالیسیوں میں یکسانیت لانا ہوگی۔ انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ یقینا طاقت سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے طویل مدتی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جس میں تعلیم کو عام کرنا، غربت کا خاتمہ اور تحفظ کی فراہمی شامل ہیں، جبکہ آپریشن کے ذریعے ان عناصر کا قلع قمع کرنا ہوگا جو ریاست سے برسر پیکار ہیں۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی خواتین اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن ہمارے سامنے ایسے دہشت گرد ہیں جنہوں نے خواتین اوربچوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہ کیا۔ لہٰذا بلا خوف و خطر ہمیں متحد ہو کر ان کے سامنے وہ بند باندھنا ہوگا جس سے آنے والی نسلیں متاثر نہ ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مدارس، اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں یکسانیت پیدا کی جائے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب تمام سطح کے تعلیمی ادارے ایک بورڈ کے زیر انتظام چلائے جائیں، کیونکہ جو بچے گورنمنٹ اور نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی اسی پاکستان کے شہری بنیں گے اور اسی سماج اور معاشرے میں رہیں گے۔ یہ وہ نفاق ہے جس کے باعث ہمارے ہاں آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مانند افرادی قوت تعمیر ہو رہی ہے جو نہ اچھے مسلمان ہیں نہ اچھے انسان۔
تا دم تحریر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے بھی اپنے اظہارِ رائے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کی پریس بریفنگ کو سختی کے ساتھ آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس صورتحال میں ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا نہ کریں جس سے محاذ آرائی میں اضافہ ہو اور اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہمیں کوئی تحفظات ہیں اور انہیں ہم درست سمجھتے ہیں تو اس کے لئے صحیح فورم کا استعمال کیا جائے۔