• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جماعت اسلامی کی جمہوریت پسندی‘‘ ۔ وجاہت مسعود کے جواب میں

وجاہت مسعود سے اختلافات کے متعدد پہلوئوں کے باوجود ان کی سنجیدہ فکری سے انکار ممکن نہیں۔ وہ معاملات کو اپنے ہی پیمانوں سے ناپتے اور اپنے ہی نظریات کے تناظر میں جانچتے ہیں،تاہم وہ جملہ بازی کی پامال راہوں پر چلنے کی بجائے دلیل کا بظاہر سہارالیتے ہیں اور اس کی پروا کم ہی کرتے ہیں کہ استدلال میں کوئی جان بھی ہے یا نہیں۔وہ استدلال پر ہی زور دیتے ہیں۔
اپنے قلم کی اس مہارت کا مظاہرہ انھوں نے اپنے کالم بعنوان ـ’’جماعت اسلامی پاکستان کی جمہوریت پسندی پر فتویٰ ‘‘ میں کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے حوالہ سے ان کے ہاں ضد اور’’میں نہ مانوں‘‘ کارویہ اتنا پختہ ہوگیا ہے کہ اگر کہیں جماعت اسلامی کی تحسین کا کوئی پہلونکلتابھی ہو اور اسے ساری دنیا تسلیم کر رہی ہو ، تب بھی ان کے لئے تحسین کرنا تو کجا ، تنقید سے پہلو تہی کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ پلڈاٹ ملک کا ایک مقتدر ادارہ ہے ۔ جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹرین کے لئے موثر ورکشاپس کے انعقاد میں اس ادارے کی کارکردگی قابل ذکر ہی نہیں قابل تعریف بھی ہے ۔ لگتا ہےفاضل کالم نگار نے نہ تو اس رپورٹ کے موضوع کو پڑھا ہے اور نہ ہی رپورٹ کے مطالعہ کی زحمت گوارا کی ہے ۔ رپورٹ سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے بارے میں ہے اس مقصد کے لئے پلڈاٹ نے 13معیارات قائم کیے اور ان کے حوالہ سے سیاسی جماعتوں کے سیکرٹری جنرلز یا کسی ذمہ دار رہنما سے معلومات حاصل کی گئیں ۔ پھر ماہرین کی ایک ٹیم نے ڈیٹا اور ریکارڈ کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کی اور ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی کے بدترین مخالف بھی جماعت اسلامی کی داخلی جمہوریت کے ہمیشہ معترف رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کا یہ شاندار ریکارڈ تو وجاہت مسعود کے لئے قابل توجہ نہیں ٹھہرا اور نہ ہی انہوں نے جماعت اسلامی کے دستور ، نظام انتخابات ، شورائیت وغیرہ کا مطالعہ کیاہے اور نہ ہی انہوں نے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کی ہے : ۔ کہ…۱۔جماعت اسلامی نے اپنے قیام کے روز اول سے ایک دستور تشکیل دیا ہے اور ایک دن کے لئے بھی اپنے دستور سے معمولی سا بھی انحراف نہیں کیا ۔ ۲۔جماعت اسلامی میں موروثیت اور خاندانی و شخصی بادشاہتیں نہیں ۔ پہلے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ، دوسرے میاں طفیلؒ محمد ، تیسرے قاضی حسین احمد ؒ ، چوتھے سید منورحسن ، اب پانچویں سراج الحق ۔ پانچوں کی نہ آپس میں عزیز داری رشتہ داری نہ علاقے اور زبان کا اشتراک ۔ کیا کسی اور جماعت میں یوں ہے ۔ ۳۔دستور جماعت میں دیئے گئے عرصہ کے بعد ہر سطح کے امیر اور شوریٰ کا خفیہ بیلٹ سے انتخاب ہوتاہے ۔ جماعت اسلامی کی پوری تاریخ میں ایک مرتبہ بھی یہ انتخاب نہ معطل ہوا نہ ملتوی ۔ ۴۔یہ انوکھا انتخاب ہے کہ نہ اس میں امیدوار ہوتے ہیں نہ انتخابی مہم نہ مثبت و منفی پروپیگنڈا نہ دھڑے بندیاں۔ ۵۔32 ہزار ارکان جماعت میں سے کسی کو بھی امیر جماعت کے لئے ووٹ دیا جاسکتاہے ۔ خفیہ بیلٹ کا ایسا نظام ہے کہ خود ناظم انتخاب اور انتخابی کمیٹی کو بھی معلوم نہیں ہوسکتاکہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے ۔ ۶۔ارکان جماعت اپنی رائے دینے میں مکمل آزاد ہیں کسی بھی فرد کا اپنے لئے ووٹ مانگنا دستور ی جرم ہے ایسا فرد نااہل ہی قرار نہیں پاتا بلکہ رکنیت سے بھی خارج ہو جاتاہے ۔ ۷۔جماعت اسلامی میں فرد واحد کے فیصلے مسلط نہیں ہوتے ۔ امیر جماعت شورٰی کے فیصلوں کا پابند ہے ۔ شورٰی منتخب ہوتی ہے ۔ 80 اراکین پر مشتمل شورٰی کو حلقہ انتخاب کے اعتبار سے پورے ملک سے خفیہ رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جاتاہے ۔ وجاہت صاحب ! اگر اس طرح کی داخلی جمہوریت کسی اور جماعت میں ہے تو آپ نشاندہی فرمائیں ۔انہوں نے فرمایا :’’ جماعت اسلامی نے آئین پاکستان میں 8 ویں ترمیم کی حمایت کی ۔‘‘ اگر آپ قومی اسمبلی ریکارڈ کا مطالعہ فرمائیں کہ جن ممبران نے آٹھویں ترمیم کی سرگرم مخالفت کی ان میں جماعت اسلامی کے ممبران بالخصوص لیاقت بلوچ صاحب شامل تھے اور بعد میں جماعت اسلامی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں جماعت اسلامی کو حکومتی سطح پر مسلسل ہدف بنایا اور نقصان پہنچایا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے منتخب میئر بلدیہ عبدالستار افغانی کی بلدیہ کو توڑدیا گیا ۔ جماعت اسلامی کے کراچی میں اثرات کو ختم کرنے کے لئے ایک لسانی تنظیم قائم کی گئی اور اسے کھل کر کھیلنے کی کھلی چھٹی دی گئی ۔تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی منتخب طلبہ یونینز پر پابندی لگائی گئی ۔پی آئی اے میں منتخب پیاسی یونین کی مسلسل کامیابیوں سے گھبرا کر یونینز پر پابندی لگائی گئی ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین کو جیلوں اور کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں ۔
12 اکتوبر 1999 ء کو ہونے والے فوجی شب خون کے حوالہ سے محترم کالم نگارنے میرا نام لے کر وضاحت کرنے کی خواہش کا اظہار کیاہے ،میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے لئے آسانی پیدا کردی ہے اور موقع فراہم کیا ہے کہ میں فوجی آمریتوں کے بارے میں جماعت اسلامی پاکستان کے موقف کو تاریخی تسلسل میں بیان کر سکوں ۔ 12 اکتوبر 99ء کو کہ جب جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الدین کے آرمی چیف ہونے کے اعتبار سے کشمکش ابھی شروع ہوئی تھی تو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی کا تین روزہ اجلاس جاری تھا اس موقع پر جو سیاسی قرار داد جاری کی گئی اس میں واضح طور پر لکھا گیا :۔’’ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لاء کے متعدد تجربات کر چکاہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لاء نہیں ہے ۔ ‘‘
اس موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں محترم قاضی حسین احمد ؒ نے کہا :۔’’ ہمیں فوج کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوناچاہئے اور اگر ہمیں کسی ثانوی کردار کی پیش کش کی جائے تو وہ ہمیں قبول نہیں کرنی چاہئے ۔ ہمیں فوج کی بیرکوں میں واپسی کا مطالبہ کرناچاہئے اور اس حوالےسے منصوبہ بندی اور دبائو کی ضرورت ہے ۔‘‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کو ابھی 100 دن گزرے تھے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی نے اس فوجی اقتدار پر شدید تنقید کی ۔ مجلس شورٰی کی یہ قرار داد اس وقت بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں :۔ ’’ مجلس شورٰی کا یہ اجلاس حکومت کی 100 دن کی کارکردگی پر اپنی تشویش اور مایوسی کا اظہار کرتاہے ۔ 14؍ اکتوبر 1999 ء کو عبوری آئین کا جو حکم جاری کیا گیا اس کے دیباچہ یا متن میں آئین کی اسلامی دفعات کو شامل نہیں کیا گیا ۔ مزید یہ کہ مملکت کے کلی اختیارات ایک فرد واحد منتظم اعلیٰ جنرل پرویز مشرف صاحب کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیئے گئے ۔سویلین اداروں میں فوجی افسران کو تعینات کیا جارہاہے ۔ فوجیوں پر مشتمل مانیٹرنگ سیل قائم کیے جارہے ہیں اور ان میں سے کچھ ڈنڈے کے ذریعے عوام کو درست کرنے کا اعلان فرما رہے ہیں لیکن بیرونی جارحیت کے خطرات کے پیش نظر فوجی افسران کا یہ استعمال درست معلوم نہیں ہوتا اس سے سول بیوروکریسی اور فوج کے درمیان کشمکش رونما ہوسکتی ہے اور خود فوجی حکام کے بھی کرپشن میں ملوث ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں کی مزاحمت کیا تھی ؟ ان کا اس سارے عرصہ میں بیرون ملک قیام اور مزاحمت سے گریز پر میں کوئی بات نہیں کرتا لیکن جماعت اسلامی نے دیگر دینی جماعتوں سے مل کر ملین مارچ نکالے ۔ روڈ کارواں اور ٹرین مارچ و مظاہرے کیے ۔ انہیں گرفتار کیا گیا ان پر لاٹھی چارج اور تشدد ہوا ۔ پرویز مشرف کی طر ف سے عدلیہ پر شب خون اور ایمر جنسی کے نفاذ پر بطور احتجاج 2008 ء کے انتخابات کا ہم نے بائیکاٹ کیا جبکہ اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے اراکین کی تعداد 70 تھی ۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی آمریت کو تین سال کی مدت اور آئین میں ترمیم کا حق ہم نے نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیا۔ 2002ء کے انتخابات میں حصہ لے کر تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے ایل ایف او کو تسلیم کیا ۔ جماعت اسلامی اور ا یم ایم اے نے تو سترھویں ترمیم کے ذریعے اس کے فوجی اقتدار کے خاتمے اور وردی اتروانے کی ایک آئینی کوشش کی تھی ۔کالم نگارکی یہ بات کہ’’پارلیمنٹ کو حق قانون سازی مطلق ہے‘‘ مکمل غیر آئینی بات ہے ۔جس ملک کا آئینی طور پر نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو ، جس کا سرکاری مذہب اسلام ہو جس میں قرار داد مقاصد آئین کا ایک مستقل ناقابل ترمیم اور فعال حصہ ہو جس میں آرٹیکل 31کے تحت اسلامی معاشرے کا قیام ریاست کی ذمہ داری ہو ، جس میں قرآن وسنت کے منافی قانون سازی کی ممانعت ہو، وہاں پارلیمنٹ کو مطلق قانون سازی کا حق کیسے ہوسکتاہے ؟
تازہ ترین