دھرنوں ،جلسوں کے کچھ پہلو اپنے پلو میں باندھے 2014گزشتہ ماہ و سال کا حصہ بن گیامگر دہشت گردی کا تسلسل برقرار رہا۔کراچی کے بعد لاہور کے پلازے میں آگ بھڑک اٹھی اور بہت سے گھروں کے چراغ گل کر گئی۔ اگر آگ بھڑکنے کی وجہ شارٹ سرکٹ اور غیرمعیاری تار ہے تو یہ پلازہ اور بلڈر مافیا کی دہشت گردی ہے ورنہ یہ دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں اضافہ کیلئے ممکنہ نئی تکنیک ہو سکتی ہے ۔ انسانیت کا خون بہانے کیلئے یقینا اور بھی کئی تیر ہونگے ان کے ترکش میں ۔یقینا ان کے بہی خواہ کہیں گے طالبان حالت جنگ میں ہیں اور جنگی حکمت عملی بدلتے رہنا عین جنگی اصول ہے ۔الوداع اے 2014 الوداع مگر کیسے کہوں الوداع اے16دسمبر الوداع، تاریخ کی قبا پر ایک ا یسا انمٹ داغ جس کی نحوست کو مٹانا ہم میں سے کسی کے قبضہ اختیار میں نہیں۔16دسمبر 1971ڈھاکہ ڈوبنے کادن ملک ٹوٹنے کا دن دو بھائیوں کے بچھڑنے کا دن، تو پھرکیسے بھول جائوں جب بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا ، عصمتیں لٹ رہی تھیں اور الزام اپنوں پہ آ رہا تھا ،خون بہہ رہا تھا خون بھی اپنا اوربہانے کا الزام بھی اپنوں پر۔ بھیڑیں لڑرہی تھیں اور بھیڑیے سرحد پار شکار کے جال کی گرفت میں آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔16دسمبر کو درندے ڈھاکہ میں داخل ہو گئے ۔ڈھاکہ فتح ہو گیا،کچھ اپنوں کی حماقتوں سے کچھ دشمنوں کی دشمنیوں سے کچھ دوستوں کی ریاکاریوں سے۔جب ہم پر بُرا وقت آیا توکوئی آواز اٹھی نہ کوئی ہماری مدد کو آیااور ہم بے بسی سے اپنا مشرقی بازو ٹوٹتا دیکھتے رہے۔پھر 2014میں اپنی تمام تر نحوستوں کیساتھ 16دسمبرپلٹ آیا ،اسی دشمن نے پھر سے اس دن کا انتخاب کیا ہمیں چتاونی دی بھول گئے ہو 16دسمبر تو ہم پھر سے یاد کرائے دیتے ہیں اور اب کی بار یہ تاریک دن ہماری تازہ کیاری سے 156پھول اپنی تاریکیوں میں سمیٹ کر لے گیا اور ہم1971کی طرح بے بس اپنے پیاروں کی چیخیںسنتے رہے مگر کچھ نہ کر پائے۔اس بار بھی ہم سے کچھ اپنے کچھ بیگانے کچھ دوست نما دشمن کچھ خاموش تماشائی کھلواڑ کر گئے مگر ہم اتنا بھی نہ کہہ سکے ہم جانتے ہیں پہنچانتے ہیںتمھیں۔میں کہہ دیتا ہوں الوداع 16 دسمبر، کیا تم مجھے میرے پھول واپس لوٹا دو گے ۔وہ پھول نہ جانے ان میں کتنے ڈاکٹرسلام تھے ڈاکٹر قدیر تھے ملالہ، ارفع کریم تھیں راشد منہاس میجر عزیز میجر شبیر تھے۔ممکن ہے کوئی ایسا رہنما بھی ہوجو ہمیں ان تاریک اندھیروں کی غلام گردشوں سے نکال باہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔کیسے کہوںمیں الوداع تیرے سیاہ پروں میں میرے لخت جگر خوابیدہ ہیں ،میری امید کے چراغ ہیں میرے سہانے خواب ہیںباپ کا مان ماں کی لوریاں ہیں اس میں،مگر کہنا تو ہو گا ورنہ تیرے فراخ سینے پر کندہ دہشت گردی کی بریکنگ نیوز میری نگاہوں کو خیرہ کرتی رہیںگی اور اگر میں انہیں لکھنے بیٹھ گیا تو یہ وحشت کالم میں سما نہ پائے گی ،دہشت گردی کے ڈیلی واقعات شمار کرنے لگا تو قلم کی سیاہی اور کاغذکا دامن کم پڑ جائیگا ۔سنو سنو میںتمھیں بہتی آنکھوں ڈوبتے دل اور دم توڑتی سسکیوں کیساتھ الوداع کہتا ہوں میرے بچوں کو جنت کے باغوں میں بحفاظت اتار دینا یہ ان کا ابدی ٹھکانہ ہے ۔2015کو خوش آمدید کہتا ہوں اس امید کیساتھ ہم کبھی 16دسمبر کو نہیں بھولیں گے ،اپنے دشمن کو موقع نہیں دیں گے وہ ہمیں یاد دلائے ،اس یقین کے ساتھ ضربِ عضب دشمن پر کاری ضرب ہو گا مگر سوچ کی گہرائیاں کہتی ہیں ۔ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔16دسمبر کے اندوہناک واقعے کے بعد مقامِ شکر ہے پوری قوم تمام سیاسی پارٹیاں فوج حکومت ایک پیج پر ہیں اور اس ایک نقطے پر متفق ہیں ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہر صورت ہونا ضروری ہے ،مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے اورسپیڈی ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔پاکستان اور اس خطے کے دیگر ممالک ہی نہیں مشرق وسطیٰ افریقہ بھی اس کی زد میں ہے اور مغرب بھی مکمل محفوظ نہیں ۔ 2جنوری کو سویڈن کی مسجد میں بم دھماکہ ہوا مقام شکر مسجد خالی تھی ،یہ سویڈن میں تیسرا دھماکہ ہے ۔سفید فام امریکی شہری روز جس نے اسلام قبول کر لیا تھا سویڈن میں قید ہے اس پر الزام ہے وہ مغرب کے مسلم نوجوانوں کو نارویگن خاکہ نویس جس نے حضرت محمدؐکے خاکے بنائے تھے کو قتل کرنے پر اکساتا ہے ۔ امریکہ کے شہر بوسٹن میں میراتھن دوڑ کے بم بلا سٹ کے 20 سالہ قازق نژاد ملزم کی جوڈیشل سماعت کے دوران ملزم کے حق میں نعرے لگے اور عدالت پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ۔ ملزم کے والدین نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ میں سیاسی پناہ لے لی تھی ملزم یہیں پیدا ہوا۔ صدر اوباما نے ملزم کی شناخت کے بعد کہا تھا حیرت ہے وہ نوجوان جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے وہ بھی دہشت گردوں سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ دسمبر میںایسٹ جرمنی کے شہر dresdenمیں pegidaنامی تنظیم کے زیر انتظام مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف17000 افراد نے احتجاج کیا جسے چانسلر انجیلا نے مسترد کر دیا مگر سابق چانسلر شروڈر نے حمایت کی ۔ 12000افراد نے ان کے خلاف جلوس نکالا، pegidaکونازی اور نسل پرست تنظیم قرار دیا ۔ یہ احتجاجی مظاہرے سگنل ہیں مغرب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ ترقی یافتہ اقوام کیلئے چتاونی ہے اگر امن کی خواہش ہے تو اپنی ایجنسیوں کو کنٹرول کریں جو مغرب کی بالا دستی کیلئے امن کوجنگوںمیں جھونکنے کا بزنس کر رہی ہیں۔ جمہوری دفاتر کے تہہ خانوں میں کالا دھندہ کررہی ہیں۔ امن تب ہو گا جب فوکس بندرپر نہیں مداری پر ہو گا ۔