• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی کی مناسبت سے خصوصی مضمون) 
26ستمبر2003کی صبح اسلام آبادسے ایک خبرنے دل کی دھڑکن کوروک دیا۔وہ شخص جس کے ساتھ جمہوری جدوجہد اورعملی زندگی میں دن رات اکٹھے گزررہے تھے وہ ہمیں چھوڑکرچلاگیا۔مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان ،سہیل وڑائچ اورمیرے ہمراہ کچھ روزقبل توچاق وچوبند لندن،سعودی عرب اوردبئی گئے تھے۔لندن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ فرانس کادورہ منسوخ کرناپڑا اور یورپ سے آنے والے دوستوں سے معذرت کی۔ واپسی پرمیاں نوازشریف جدہ میں منتظر تھے، جہاں پر ہمیں عزت و احترام کے ساتھ ٹھہرایا گیا اور ملاقاتوں کے کئی دور ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان واپس آنے کی بجائے دبئی میں بے نظیربھٹو سے دوبارہ ملاقات رکھنی پڑی اورپھرNotes کا تبادلہ ہوتا رہا ۔آج پاکستان جس دوراہے پرکھڑا ہے وہاں پاکستانی انکی جمہوریت کیلئے خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔تابناک ماضی،بے مثال روایات کے حامل اورشاندار سیاسی جمہوری جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا شخص1918ءکوخان گڑھ میں پیدا ہوا۔ 23مارچ1940ءکے عظیم الشان اورتاریخی اجتماع میں موجود تھے جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ 1952ءمیں صوبائی اسمبلی، 1962ء، 1977ء اور 1993ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویزمشرف کے آمرانہ دورکے خلاف بھرپور جدوجہد کی اور ہر تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ جنرل ایوب خان،ذوالفقارعلی بھٹو،جنرل ضیاء الحق،محمدخان جونیجو، بے نظیربھٹو،میاں نوازشریف اورپرویزمشرف سمیت ہرحکمران کے ساتھ مذاکرات میں شریک رہے۔پاکستان کے بڑے بڑے اتحادبنانے میں اہم رول اداکیاجس میں خاص طور پر بے نظیربھٹواورمیاںنوازشریف کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرناتھاان حالات میںدونوں کااتحادبناناآگ اورپانی کا اتحاد تھا جس کا کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھا۔ہرچھوٹی بڑی پارٹی کوساتھ ملاکرچلانے کے بارے میں مرحوم کہاکرتے تھے کہ بلند، اعلیٰ مقاصداورجمہوریت کی خاطرتمام قوتوںاور مختلف مکاتب فکرکے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہئے اوراسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگرآپ ایک مکان بنانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے اینٹ، گارا، سیمنٹ، لوہا، روڑااوربجری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ اتفاق رائے کے اتنے حامی تھے کہ ایک مشہور صحافی نے1995یں انکے بارے میں لکھا تھا کہ اگر نوابزادہ نصراللہ خان وزیراعظم بنتے ہیں تو انکی کابینہ میں بے نظیر بھٹو وزیر خارجہ، میاں نوازشریف وزیر خزانہ، مولانا فضل الرحمان مذہبی امور،مولاناشاہ احمدنورانی وزیر تجارت، الطاف حسین وزیرداخلہ، ولی خان سینئر وزیر اور صوبائی امور،ایئرمارشل اصغرخان،وزیردفاع اورغلام مصطفیٰ جتوئی اسپیکرقومی اسمبلی ہونگے۔مرحوم نے2000ءمیں جس طرحARDبنائی۔1995ءمیں لکھے گئے خیالات نے اُس کی تصدیق کردی۔کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انکی سفارت کاری اورایک مقصدکیلئے جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔ بلاشبہ کشمیر کے کازکیلئے کوئی پاکستانی پیچھے نہیںہٹ سکتالیکن سینئرسیاستدان کو یہ ذمہ داری دیکرمحترمہ بے نظیربھٹونے اپنی کشمیر کیلئے بھرپور کمٹمنٹ کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین چوہدری سرورخان ، حامد ناصر چٹھہ اورسردارعبدالقیوم جبکہ آج مولانافضل الرحمان چیئرمین ہیں لیکن وہ برائے نام کام کررہے تھے اورکررہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں کرفیو لگا ہوا ہے سوسے زیادہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔حریت لیڈربرہان وانی کی شہادت نے نئی نسل کوآزادی کی تحریک میں شامل کردیاہے۔بھارتی فوج کی پلیٹ فائرنگ سے زخمیوں کی تعدادمیں خاصا اضافہ ہوالیکن ان حالات کے باوجودکشمیرکمیٹی خراٹے لیکر سو رہی ہے۔ آج جب کشمیرکی آزادی کی لڑائی شدیدترہوگئی تو نوابزادہ نصراللہ خان ہمیں بہت یادآرہے ہیں جنہوں نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے یورپ کادورہ کیا اور اسلامک آرگنائزیشن کے اجلاس 13تا15دسمبر 1994ء میں کشمیرکے حق میں تاریخی قراردادمنظورکرائی جس میں کشمیرکے مسئلے کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کامطالبہ کیا۔اس طرح نوابزادہ کی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبرپارٹی نے مسئلہ کشمیرکے حل کواپنے منشورکاحصہ بنایا۔
اپریل1994ءمیںکشمیر کاز کو اجاگر کرنےکیلئے مرحوم نوابزادہ نصراللہ نے یورپ کادورہ کیا۔ان ممالک میںبرطانیہ،بلجیم،ہالینڈ،فرانس،سویڈن،آسٹریا،اسپین اورترکی شامل تھے۔یہ وہ تمام ممالک ہیں جن کی قدرمشترک جمہوری نظام ہے۔کشمیرکمیٹی کے وفدمیں آزادکشمیر کے پہلے صدر سردار ابراہیم، شیخ رشید احمد، ارباب جہانگیرخان،سہیل وڑائچ،شفقت محمود،ایس ایم ظفر،عبدالرشید ترابی، جلیل عباس جیلانی اور سرکاری افسران شامل تھے۔ برطانیہ کے دورے کی بدولت برطانوی پارلیمنٹ میں70 سے زائداراکین پرمشتمل کشمیرکمیٹی قائم کی گئی جس میں کنزرویٹو، لیبر اور برل پارٹی کے اراکین شامل تھے۔ پاکستان کے وفد نے بلجیم میں یورپی پارلیمنٹ میں جنوبی ایشیاکے امورکی انچارج مادام انیتا نچلاک، سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین اورگرین پارٹی کی سربراہ کوکشمیر میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتوجہ دلائی۔
ہالینڈمیں سیکرٹری جنرل خارجہ اموروان ڈن پرگ، پارلیمنٹ کی خارجہ امورکمیٹی،اورعالمی عدالت انصاف کے صدر محمد بیڈجائوسے ملاقات کی۔فرانس میں امور خارجہ کی کمیٹی کے چیئرمین ڈی مانٹسکو،وزارت خارجہ کے انچارج،انٹرنیشنل فیڈریشن آف ہیومین رائٹس، پاک فرانس دوستی کے سربراہ پرلس اوردیگرارکان سے تفصیلی گفتگوکی۔سویڈن کے دورے کایہ فائدہ ہواکہ ارکان پارلیمنٹ نے بھارتی وزیراعظم کوکشمیرپراحتجاجی مراسلہ بھیجا۔آسٹریامیںوفدکے ساتھ آسٹریاکے صدر تھامس کلٹل نے ملاقات کی جس میں صدرنے کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پراپنی تشویش کا اظہار کیا جبکہ آسٹریاپارلیمنٹ کےا سپیکر،خارجہ امورکمیٹی کے چیئرمین،آسٹریاکی پارٹی کے ہینرچ تھراوردیگراہم لوگوںسے ملاقاتیں کیں جس میں لیڈروںکاخیال تھاکہ اگرکشمیرکامسئلہ حل نہ ہواتویہ نئی عالمی جنگ کامرکزبن سکتاہے۔نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی ملک وقوم کیلئے خدمات کے ساتھ ساتھ کشمیرکازکیلئے دن رات محنت بھی ہمیشہ یادرکھی جائیگی۔آج جب ہم انکی برسی منارہے ہیںاورکشمیرکی آزادی کی تاریخ لکھی جارہی ہے توہم کس طرح مرحوم نوابزادہ نصراللہ کوبھول سکتے ہیں۔وہ کہتے تھے کہ پاکستان کبھی بھی کشمیریوں کونہیں چھوڑسکتا۔بے سروسامان کشمیری پاکستان اوراپنی آزادی کیلئے بھارتی فوج کامقابلہ کررہےہیںتوہم کیوں نہ ان کاساتھ دیں۔کشمیرمیں مداخلت پرمرحوم کاواضح موقف تھاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کسی ملک کاداخلی مسئلہ نہیں یہ ایک انسانی مسئلہ ہے جس پرخاموش رہناجرم ہے اوراسی وجہ سے وہ چیئرمین کشمیرکمیٹی کی حیثیت سے خاموش نہ رہے اوراپنی عمرکی بزرگی کے باوجودیورپ کے دورہ کے دوران صبح9بجے سے لیکررات12بجے تک اجلاس کرتے تھے اورپھراگلے دن سب سے پہلے تیارہوکرآجاتے تھے۔
تمام اخبارات پڑھنا،ٹی وی کی خبریں سننااورکتابیں پڑھناانکی روزمرہ کی روٹین تھی۔پاکستان کے تمام لیڈراورعوام کی بڑی تعدادانکی بہت عزت کرتی تھی کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ سیاست میں کرپشن کرنے کیلئے نہیں بلکہ ملک وقوم کی خدمت کرنے کیلئے کرتے ہیں اس لئے بھی سب کاان پراعتماداوراتفاق تھا۔نوابزادہ جمہوریت کے نہ صرف حامی تھے بلکہ فوج کی Direct یاIndirectمداخلت کے سخت خلاف تھے۔مرحوم نوابزادہ صدارتی نظام کے حق میں نہیں تھے اور کہا کرتے تھے کہ قائداعظم محمدعلی جناح نے پارلیمانی سسٹم متعارف کروایاتھااوریہی ایک ایساسسٹم ہے جس پر دائیں، بائیں اوردرمیان والی پارٹیاں متفق ہیں۔اس لئے ہرآمر ان سے خوفزدہ رہتا تھا خاص طور پر ان کی اتحادبنانے کی صلاحیتوں سے۔نوابزادہ نہ صرف صحیح معنوںمیں ایک سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔وہ اپنی سادگی،حلیمی دھیماپن، محبت اورخلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔نکلسن روڈ کا چھوٹا ساگھرجس میں انکی زندگی کے شب وروزگزر ے ہیں پاکستان اور خصوصاً لاہوریوں کو بہت یاد آتا ہے۔ انکا کمال یہ بھی تھاکہ پاکستان کی بڑی بڑی لیڈرشپ کوانہوںنے اسی چھوٹے گھرکادیدارکروایا۔ مرحوم ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوںنے ہمیشہ انقلابی سیاست کی۔وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کی بات کرتے تھے ۔انہوںنے جنرل ضیاء الحق کی قیدکے دوران اپنے انقلابی ہونے کاشعروں میں اس طرح اظہارکیا۔
کتنے بیدردہیں صرصرکوصباکہتے ہیں
کیسے ظالم ہیںکہ ظلمت کوضیاء کہتے ہیں
کل بھی حق بات جوکہنی تھی سرِدارکہی
آج بھی بیش بتاں نام خداکہتے ہیں
26ستمبرکے دن انکوشاندارخراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہمیں اس بات کااعادہ کرناچاہئے کہ پاکستان میں جمہوریت کومضبوط کرینگے اورکشمیرآزادکرائینگے۔



.
تازہ ترین