• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کوئی آج سے تیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں دلی گئی۔ اخبار میں دیکھا ستارہ دیوی کتھک ڈانس کا افتتاح کرنے آرہی ہیں۔ میں نے زبیر رضوی کو پکڑا اور اس شام کا منظر دیکھنے پہنچ گئی جس کو میں نے اپنے بچپن کی یادوں میں بسایا ہوا تھا۔ پتہ نہیں اسٹیج پہ آنے والوں کا دل میری طرح دھڑک رہا تھا کہ نہیں۔
فلموں میں ایک زمانے تک ڈانسرز کا رول الگ ہوتا تھا اور وہ آج کل کی فن کارائوں کی طرح ہر فن مولا نہیں بنادی جاتی تھیں۔ اپنے زمانے میں سب سے مقبول ڈانسر ستارہ دیوی تھیں۔ یہ منظر کلب کا ہوتا تھا۔ جہاں ڈانسر اپنے فن کا مظاہرہ کررہی ہوتی تھی۔ ستارہ دیوی کے بعد، ککو منظر عام پر آئیں، بعدازاں جو بہت مقبول ہوئیں، وہ تھیں ہیلن۔ زمانہ بدلا، اب سب لڑکے لڑکیاں ڈانس کرنے لگے تھے۔ وہ بھی دوچار نہیں۔ لیکن سینکڑوں اور کبھی دس بارہ۔ لڑکوں کا ڈانس خاص کرشمی کپور نے متعارف کروایا تھا۔ مجھے تو ذاتی طور پر پسند نہیں آتا تھا مگر عمومی طور پر پسند کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ راجیش کھنہ تک چلا۔ اچھا، کلاسیکل اور کتھک ڈانس، فلموں سے غائب ہوگیا تھا۔ ڈانسریں بھی غائب ہوگئی تھیں۔ وجنتی مالا اور وحیدہ رحمٰن کمال کی ڈانسر تھیں، زمانہ بدلا تو پھر مادھوری ڈکشٹ نے اپنا جادو دکھایا۔ مادھوری کے ساتھ ایک ڈانس ایشوریا نے کیا تھا۔ جو کمال تھا۔ اب تو کلاسیکل اور خاص کر کتھک یا ارڈیسی ہندوستان میں آڈیٹوریم میں نہیں بلکہ زیادہ تر مندروں میں ہوتے ہیں۔
ارے میں نے تو یہ بتانا تھا کہ میں نے ستارہ دیوی کا ڈانس کیسے دیکھا۔ میں اور زبیر رضوی جب کمانی آڈیٹوریم پہنچے، تھوڑی دیر کے بعد پردہ کھلا اور ستارہ دیوی نمودار ہوئیں۔ کتھک کی سلامی دی اور دونوں ہاتھ پھیلاکر کھڑی ہوئیں۔ دو شاگردوں نے آکر دیئے ان کے دونوں ہاتھوں پر رکھے۔ دو نئی کتھک ڈانسرز سامنے آئیں ستارہ دیوی نے دیئے ان کے ہاتھ میں دیئے رکھے۔ ان لڑکیوں نے کتھک ڈانس کیا اور آخری مرحلے پر پھر ستارہ دیوی درمیان میں آگئیں۔ اور یوں یہ شام تمام ہوئی۔
ستارہ دیوی نے 11سال کی عمر میں رابندر ناتھ ٹیگور کے سامنے رقص پیش کیا تھا۔ ٹیگور نے خوش ہوکر انہیں شال اور پچاس روپے دئیے۔ ستارہ دیوی نے دونوں چیزیں واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دعا دیں اور میرے سر پر ہاتھ رکھیں کہ میں بڑی ڈانسر بنوں۔ چونکہ ان کے والدین کتھک کے استاد تھے۔ اس لئے ان کی تربیت بھی گھر پر ہی ہورہی تھی۔ ممبئی میں آئیں اور ان کا رقص دیکھ کر فلم والوں نے ان کو فلم میں لینے کی منصوبہ بندی کی۔ یہی زمانہ تھا کہ کلب کا منظر اور ڈانس معہ گانے کے شروع کیا گیا۔ ستارہ چونکہ مہمان تھیں۔ اس زمانے میں یہ اعتراض بھی نہیں اٹھا تھا کہ وہ کیسے ڈانس کرسکتی ہیں کہ انہی کے زمانے میں زہرہ سہگل بھی اودے شنکر گروپ میں ڈانس کررہی تھیں۔ ادھر پنجاب میں میڈم آزوری کی دنیا بھر میں دھوم تھی اور اس زمانے کے تمام انگریزی اخباروں میں ان کی تصاویر شائع ہورہی تھیں۔ بمبئی میں پہلے کے۔آصف سے پھر ایک ہندو کتھک استاد سے شادی کرلی۔ وہ ساٹھ برس تک اپنے شاگردوں کو رقص سکھاتی رہیں۔ کے۔آصف سے ان کا ایک ہی بیٹا ہے جو ڈانس اور میوزک میں، یکتا ہے اور دنیا بھر میں پرفارم کرتا نظر آتا ہے۔
آج کے زمانے کے کتھک میں کیوروگرافی نئے انداز کی بھی شامل کرلی گئی ہے۔ ملکہ سارا بائی کتھک کے ساتھ نظموں پرکیورو گرافی کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں ناہید صدیقی اور شیما کرمانی، عورتوں کے موضوعات پر اپنے اپنے رقص کے انداز میں کیورو گرافی کرتی ہیں۔ شیما نے تو بہت سے ڈانس ڈرامے بھی بنائے ہیں۔ جن کا موضوع، فیض اور فہمیدہ ریاض کی شاعری بھی ہیں۔ عورتوں کے استحصال اور مظالم کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جبکہ ناہید صدیقی ماحولیاتی کثافت کو ختم کرنے اور خشک سالی سے پیدا شدہ تھر کی صورت حال پر کتھک پیش کرتی ہیں۔ شیما کے ڈانس کو کتھا کلی اور اوڈیسی کہتے ہیں، جس کو آج 90برس کی عمر کو پہنچ کر اندومٹھا،آج تک سلامت رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی فلموں میں اوڈیسی بہت کم دکھائی گئی ہے۔یہ منی جنوبی ہندوستان کی ڈانسر تھیں جن کی اوڈیسی پر فلم اور گانا بھی پکچرائز کیا گیا تھا جس کے شاید بول تھے ’’آدھا ہے چندرما، رات آدھی‘‘۔ ویسے تو جنوبی ہند کی علاقائی زبانوں میں، ہر طرح کے علاقائی رقص دکھائے جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں پشتون علاقوں کا تلواروں والا رقص، بلوچستان کا مکرانی اور مچھیروں کا رقص، سندھ میں جھومر ڈانس اور پنجاب میں تو لڈی اور بہت طریقے کے مردوں اور عورتوں کے رقص ہوتے ہیں۔ یہ تمام فوک ڈانس عورتوں اور مردوں کے مشترکہ ہوتے ہیں۔ اکثر گھروں میں ہوتے ہیں۔ باہر ہوں تو صرف مردوں کے ہوتے ہیں۔ اس طرح گلگت کے علاقے میں چغہ اور ٹوپی پہن کر صرف مرد رقص کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں کوئی باقاعدہ اکیڈمی نہیں ہے۔ یہ تو ذاتی رغبت اور محبت کے باعث اندومٹھا، اس عمر میں بھی باقاعدہ ڈانس سکھاتی ہیں۔ شیما کا تو باقاعدہ انسٹیٹیوٹ ہے، ناہید صدیقی کے پاس گھر میں ہی چند شاگرد ہیں۔ جتنے بھی آرٹ انسٹیٹیوٹ ہیں۔ وہ فارغ بیٹھے ہیں۔ پہلے پی۔این۔سی۔اے میں میوزک کے علاوہ ڈانس بھی سکھایا جاتا تھا۔ ضیاالحق کا زمانہ کیا آیا۔سارے فنون پہ پانی پھرگیا۔ اب اداروں کے نام پر بلڈنگیں کھڑی ہیں۔ اندر جائو تو دیواریں بھائیں بھائیں کرتی نظر آتی ہیں۔نیشنل اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو نجانے کس نے جگادیا اور پرویز رشید کو کہا کہ ان اداروں کے بورڈ آف گورنر بنائو ارے پہلے ان کے ہیڈ تو مقرر کرو۔ منسٹری کے جوائنٹ سیکریٹریز مزے کررہے ہیں۔ دگنی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ کام... ارے کام کا تو کوئی پوچھے گا تو پھر بتائیں گے۔
شکریہ ستارہ دیوی آپ کو یاد کرتے ہوئے، مجھے اپنے فنکار اور اداروں کا احوال بھی یاد آگیا۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی کالم میں کوئی شکایت نما تحریر آجاتی تو اس کا فوراً نوٹس لیا جاتا تھا۔ اب سیاسی سوال و جواب سے فرصت ملے تو فنون کی جانب توجہ دیں۔ یہی حال علم، نصاب اور علمی اداروں کا ہے، اگر سنجیدگی سے لیا جاتا تو کم از کم منور حسن کے قتال اور جہاد کا جواب تو دیا جاتا۔
تازہ ترین