• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سپریم کورٹ نے اسلام آبادہائی کورٹ میں مختلف عہدوں پرگریڈ آٹھ سے لے کر گریڈ انیس تک کی جانے والی 74تقرریوں کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں کے فیصلے میں تمام بھرتیوں کو غیرقانونی پائے جانے کی بناء پر منسوخ کرکے غیرجانبداری اور کھرے انصاف کی ایسی شاندار مثال قائم کی ہے جو یقیناً پورے ریاستی نظام میں آئین اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے نہایت دور رس اور مثبت نتائج کا سبب بنے گی۔فیصلے میں ڈپٹی اورایڈیشنل رجسٹرار سمیت خالی ہونے والی تمام اسامیوں پرنیشنل ٹسٹنگ سروس کے تحت پینتالیس دن کے اندر دوبارہ تقرریاں مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔فیصلے سے متاثر ہونے والوں میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سگے بھائی اورایڈیشنل رجسٹرار بھی شامل ہیں۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں وضاحت کی ہے کہ عدالتوں کے عدالتی احکامات کو تو آئینی تحفظ حاصل ہے لیکن انتظامی فیصلوں اور اقدامات کو نہیں۔ان آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں قائم کی گئی تین رکنی بنچ نے کی جس کے دوسرے ارکان میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس دوست محمد شامل تھے۔ 54 صفحات پر مشتمل جسٹس امیر ہانی مسلم کے تحریر کردہ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کے اقدام سے ان اسامیوں پر تقرریوں میں آئین کی دفعہ208 اور سروس رولز 2011ء کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔یوں اس تاریخ ساز فیصلے کے ذریعے عدالت عظمیٰ نے اپنے ہی شعبے کے ایک اعلیٰ ادارے کی غلطی کو درست کرکے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام تیزی سے ان مصلحتوں سے پاک ہورہا ہے جو غلطیوں کی اصلاح میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اپنے ہی ادارے کی غلطی درست کرکے سپریم کورٹ نے ملک کے نظام انصاف پر پوری قوم کے اعتماد کو مستحکم کیا اور تمام اداروں پر آئین اور قانون کی مکمل بالادستی کی راہ ہموار کی ہے اور کسی بھی قوم کی سربلندی کیلئے یہی سب سے ضروری شرط ہے۔
.
تازہ ترین