• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادش بخیر، کسی زمانے میں پی ٹی وی کوئٹہ سے ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس میں ایک کردار جب بھی کسی بات پر حیرت زدہ ہوتا تو کہتا ’’الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا!‘‘ مثلاً:’’لگتا ہے آج دھوپ میں بارش ہوگی!‘‘ جواب میں وہ کردار حیرانی سے کہتا ’’اچھا! مگر الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا!‘‘ یہ کردار بظاہر ایک بیوقوف سے شخص کا تھا جس نے اپنے ذہن میں کوئی تصوراتی دنیا بسا رکھی تھی جسے اُس نے الکمونیا کا نام دیا ہوا تھا۔ اب ہم سمجھدار ہو چکے ہیں، پڑھ لکھ بھی گئے ہیں، اس لیے آج کل ہم نے اِس ڈائیلاگ میں ترمیم کر لی ہے، آج کل ہم جب بھی اپنے ملک میں کرپشن، لاقانونیت یا جہالت کی کوئی بات سنتے ہیں تو جھٹ سے کہتے ہیں ’’کمال ہے، امریکہ میں تو ایسا نہیں ہوتا!‘‘ اِس جملے میں ایک جہان آباد ہے، پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ کہنے والا دنیا گھوم چکا ہے، امریکہ، یورپ، برطانیہ وغیرہ کے نظام حکمرانی کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کر چکا ہے جس کے بعد وہ قطعی لہجے میں یہ جملہ بولنے کا مجاز ہے، دوسرا تاثر یہ ملتا ہے کہ پاکستان ہی کرہ ارض پر وہ واحد ملک ہے جہاں اس نوع کی بدمعاشی اور بدعنوانی برداشت کی جاتی ہے وگرنہ دنیا کے کسی اور ملک میں اس کا تصور بھی محال ہے، اور تیسرا تاثر حب الوطنی کا ملتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے کہنے والے کے دل میں ملک کے لئے اس قدر کرب اور غم ہے کہ اِس غم کو غلط کرنے کے لئے اُسے ہر شب کوئی نہ کوئی اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر کافی غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کی مثالیں ڈھونڈ کر لانے والے دراصل اسی کردار کی طرح احمق ہیں اور مغالطے کا شکار ہیں، حقیقت میں ہمیں اپنے ملک میں کچھ ایسی عیاشیوں کی سہولت حاصل ہے جن کا دنیا کے بیشتر ممالک تصور بھی نہیں کر سکتے، میں نے بڑی محنت سے ایسی عیاشیوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے، اس میں سے چند قابل اشاعت آج پیش خدمت ہیں :(ناقابل اشاعت فہرست حاصل کرنے کے خواہش مند علیحدہ سے ملاقات کا وقت لیں۔ نوٹ :مستورات کے لئے پردے کا انتظام ہے)۔
1۔سن2000 کے امریکی انتخابات میں جارج بش اور الگور کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا، فلوریڈا کی ریاست میں تو یہ حال تھا کہ شام آٹھ بجے تمام بڑے نیوز چینلز نے ایگزٹ پول کی بنیاد پر الگور کے کھاتے میں پچیس الیکٹورل ووٹ لکھ ڈالے تھے لیکن دس بجے کے قریب اصل نتائج کے بعد پتہ چلنا شروع ہوا کہ بش یہاں سے سبقت لے رہا ہے چنانچہ میڈیا نے فلوریڈا کو دوبارہ Undecidedکہنا شروع کر دیا، رات ڈھائی بجے جب پچاسی فیصد ووٹوں کا نتیجہ آ چکا تو بش کی سبقت ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی سو انہی نیوز چینلز نے بش کو فاتح قرار دے دیا مگر صبح ساڑھے چار بجے کے قریب جب باقی ماندہ ووٹوں کی گنتی ہوئی تو بش کی جیت کا مارجن فقط دو ہزار رہ گیا تھا، الگور نے، جو بش کو انتخاب جیتنے کی مبارکباد دے چکا تھا، اپنی مبارکباد واپس لے لی کیونکہ ایک مرحلے پر یہ فرق گھٹ کر تین سو رہ گیا تھا اور ریاست کے قانون کے مطابق ووٹوں کا فرق اب اس نہج پر آچکا تھا کہ وہ دوبارہ گنتی کی درخواست دے سکتا تھا۔ قصہ مختصر یہ معاملہ فلوریڈا کی سپریم کورٹ تک پہنچا جس نے الگور کے حق میں فیصلہ دیا مگر بعد ازاں امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جارج بش امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ حماقتیں امریکہ میں ہی ہو سکتی ہیں جہاں دھرنا دینے کی عیاشی ہے نہ اداروں پر حملہ کرنے کی آزادی، الگور بدقسمت شخص ہے جو امریکہ میں پیدا ہوا اور چند ووٹوں کے فرق سے صدر نہ بن سکا، اس کا یہ بیان بھی مضحکہ خیز ہے کہ صدر بننے کی بجائے نظام کو بچانا میری ترجیح ہے، یہ جوان رعنا اگر پاکستان میں ہوتا تو بلا کھٹکے سپریم کورٹ سمیت ہر اس ادارے کو بکاؤ کہہ دیتا جو اس کے خلاف فیصلہ دیتا اور پورے ملک کا نظام تلپٹ کرکے رکھ دیتا، بے شک یہ ایک ایسی سہولت پاکستان میں میسر ہے جس کا امریکی خواب بھی نہیں دے سکتے۔
2۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ جس شخص پر چاہیں بلا کھٹکے کرپشن کا الزام لگا دیں، اپنے اس فعل کا نام ہم نے احتساب رکھا ہوا ہے۔ ہمارا یہ حق آئین میں کہیں لکھا تو نہیں مگر اس کے باوجود اس حق کا استعمال کرنے کے لئے ہمیں کسی عدالت کی ضرورت نہیں پڑتی، اُلٹا عدالتیں اکثر اس حق کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کرتی ہیں مگر پاکستان کے باشعور عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک سے کرپشن کا ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بغیر کسی خوف کے ہر اُس شخص پر بکاؤ مال یا کرپٹ ہونے کا الزام لگا دو جو زندگی میں اُن سے زیادہ کامیاب ہے یا جو اُن کے نظریات سے اختلاف کرتا ہے یا پھر جس کی شکل ہی انہیں پسند نہیں، یہی اصل احتساب ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس قسم کا بے رحمانہ احتساب کرنے کی عیاشی بھی فقط ہمارے ملک میں ہی ہے، امریکہ میں تو ایسا نہیں ہوتا !
3۔امریکہ سمیت دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں الٹے سیدھے قوانین کے اطلاق نے عوام کی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے، کہنے کو تو یہ آزاد معاشرے ہیں مگر یہاں انسان کی آزادی قانون کی پابندیوں میں یوں جکڑی ہوئی ہے جیسے فرعون کے زمانے میں غلام زنجیروں میں جکڑے جاتے تھے۔ کہیں تھوک دو تو جرمانہ بھرو، گھر کے باہر کوڑا پھینک دو تو سزا بھگتو، ٹیکس بچاؤ تو جیل جاؤ، گاڑی مرضی سے پارک کر دو تو گاڑی ضبط، یعنی حد ہے ظلم کی، بندہ اپنی مرضی سے ان ممالک میں جی نہیں سکتا اور الٹا پروپیگنڈا یہ کہ یہ آزاد ملک ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک ان آلائشوں سے پاک ہے، جو آزادی ہمیں اپنے ملک میں میسر ہے اس کا عشر عشیر بھی امریکہ میں نہیں پایا جاتا، ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں تھوک سکتے ہیں، پان کی پیک سے دیواروں پر نقش و نگار بنا سکتے ہیں، محلے میں کوڑے کے ڈھیر لگا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں، جہاں دل کرے گاڑی پارک کر سکتے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ لیکن یہ سب بھی معمولی باتیں ہیں اصل عیاشی تو ہمارے میڈیا کی آزادی ہے، امریکہ جیسا ملک جو اپنی نام نہاد پہلی آئینی ترمیم کی بنیاد پر آزادیٔ اظہار کا ڈھول پیٹتا رہتا ہے ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہم میں سے تو جس کے ہاتھ میں قلم آ جائے اُس کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا اور اگر کسی کو ٹی وی اسکرین مل جائے تو کیا کہنے، ایسے مرد عاقل کو پوری آزادی ہے کہ وہ جب چاہے جس کی چاہے پگڑی اچھال دے، اور ساتھ میں حسب ذائقہ اس بات کا بھی تڑکہ لگاتا رہے کہ ’’قانون کی دھجیاں صرف ہمارے ملک میں ہی بکھیری جا سکتی ہیں، امریکہ سمیت کسی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا!‘‘
بے شک امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا!

.
تازہ ترین