• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کے الیکٹرک کا نرخ زیادہ ہے، اسے جاری رکھنا صارفین کے مفاد میں نہیں، ٹیرف پٹیشن کی سماعت میں دلائل

کراچی (اسٹاف رپورٹر)  کے الیکٹرک  کی انٹیگریٹیڈ ملٹی ایئر ٹیرف(Integrated Multi-Year Tariff; I-MYT)کے حوالے سے   ٹیرف پٹیشن  کی سماعت کرا چی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد  ہوئی جس کی صدارت چیئرمین نیپرا بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق سدوزئی نے کی دیگر ممبران میجر ریٹائرڈ ہارون رشید، محسود الحسن نقوی اور ہدایت اللہ خان بھی موجود تھے، سماعت میں سیاسی رہنمائوں، کاروباری طبقے، سماجی بہبود کیلئے کام کرنے والے افراداور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور کہا کہ موجودہ ٹیرف بہت زیادہ ہے اسے جاری رکھنا صارفین کے مفاد میں نہیں ہے کراچی کے عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،اوور بلنگ اور بوگس بلنگ سے تنگ آچکے ہیں کے الیکٹرک   کا موقف ڈائریکٹر فنانس عامر غازیانی نے پیش کی اور کہا پیش کی گئی پٹیشن آئندہ دس برسوں کے لیے کمپنی کے بزنس پلان پر مشتمل ہے مجوزہ منصوبے ادارے کو بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے دائرہ کار میں مزید اضافے کو یقینی بنائیں گےپٹیشن کے مطابق اپنے سرمایہ کاری پلان پر روشنی ڈالتے ہوئے کے الیکٹرک کے ترجمان نے   مزید کہا،’’پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے شعبہ بالخصوص گرین فیلڈ پروجیکٹس میںنجی شعبے کی جانب سے بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کی مثال عام نہیں۔ملک اورپاور سیکٹرمیںاس کثیر سرمایہ کاری کے لیے ورٹیکلی انٹیگریٹیڈ ٹیرف (vertically integrated tariff)کوطویل المیعاد ریگولیٹری ماحول درکار ہوتا ہے ۔ کے الیکٹرک کی جانب سے سرمایہ کا ری کاتسلسل پاکستان کے لیے ہمارے طویل المیعاد عزم کو تقویت دیتا ہے اورمستقبل میں پاور سیکٹر کی ترقی پر ہمارے اعتماد کو ظاہر کر تا ہے۔کے الیکٹرک کے انفراسٹرکچر کو مزید ترقی دینے اور مضبوط بنانے کے اقدامات سمیت یہ سرمایہ کاری ہمارے صارفین کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی۔کے الیکٹرک کا مجوزہ بزنس پلان کراچی میں محفوظ اور باکفایت بجلی کی فراہمی کے لیے کمپنی کے عزم کی ترجمانی کرتا ہے ۔اس پلان کے تحت جنریشن کی گنجائش میں 4,283میگا واٹ کا اضافہ کیا جائے گا اور(average fleet efficiency)  میں 37 فیصد سے بڑھا کر مالی سال 2026تک 43.3 فیصد تک لے جایا جائے گا جب کہ ترسیل کے نظام میں 28 فیصدکے اضافے(km) سمیت پاور ٹرانسفارمز کی گنجائش میں 3,370MVA  کا اضافہ کیا جائے گا۔مزید برآں ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات کو مالی سال 2015کے مقابلے میں 23.7 فیصد سے کم کر کے مالی سال 2026 تک 13.8 فیصد تک لایا جائے گا ۔ اس عرصے کے دوران ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں 1000 نئے فیڈرز کا اضافہ کیا جائے گا اور11KVکی 4500کلومیٹر طویل زیر زمین اور اوورہیڈ سرکٹس نصب کی جائیں گی۔کے الیکٹرک انٹیگریٹیڈ ملٹی-ایئرٹیرف (Integrated Multi-Year Tariff; I-MYT)کے تحت کام کر رہا ہے۔ اپنے گزشتہI-MYT کے ذریعے کے الیکٹرک نے 120.7ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جو اس وقت کے پیش کردہ پلان سے بہت زیادہ ہے۔مالی سال 2009 سے مالی سال 2015 کے دوران ادارے نے اپنی پیداواری گنجائش میں 1037 میگاواٹ اور ترسیل کی گنجائش میں 768MVAکا اضافہ کیا ہے۔اپنی اس سرمایہ کاری کے ذریعے ادارہ ترسیل اور تقسیم کے نقصانات کو 36فیصد سے کم کر کے 24 فیصد تک لانے میں کامیاب ہوا ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ 2009میں بلا امتیاز لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی اور شہر کا صرف 24 فیصد علاقہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ تھا۔ آج شہر کا نہ صرف61فیصد علاقہ بلکہ کراچی کے تمام صنعتی زونز بھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔مزید برآں، صحت کے بڑے مراکز اور فلاحی اداروں کو بجلی کی مفت یا رعایتی نرخوں پر فراہمی کے ذریعے ادارہ ہر سال 35لاکھ افراد کی زندگیوںمیں مثبت کردار اداکرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ادارے نے نوجوان نسل کو صحت بخش سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پراسپورٹس ایونٹس بھی منعقد کیے ہیں تاکہ ان کو پیشہ وارانہ مواقع مل سکیں۔اس کے علاوہ طلباء کی مختلف سرگرمیوں میں حوصلہ افزائی کی ہے۔ کے الیکٹرک نے ’اجالا‘ کے نام سے ایک کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ بھی متعارف کیا ہے جس پر سرمایہ کاری کا تخمینہ پانچ ارب روپے ہے تاکہ جون 2017 تک 200 کمیونٹیز میں 10 لاکھ افراد کی زندگیوںمیں بہتری لائی جا سکے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے  نیپرا کے اجلاس میں کراچی کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف عوام کا مقدمہ پیش کیا اور عوامی احساسات و جذبات پر مبنی اپنا مؤقف پیش کیا اور کہا کہ سابقہ کے ای ایس سی میں پائی جانے والی بد ترین بد انتظامی اور مالی بد عنوانی کے سبب وفاقی حکومت نے اس کی نجکاری کی تھی جس کا بنیادی مقصد لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ،اس کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور صارفین کو بلا تعطل سستی بجلی فراہم کرنا تھا ۔لیکن کراچی کے شہری بوگس بلنگ ،طویل لوڈشیڈنگ ،آئے دن بجلی مہنگی ہوجا نے کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں ۔شہریوں سے مختلف ناموں سے اربوں روپے کا جبری بھتہ وصولی معمول کا حصہ بن گیاہے ۔معاہدے کے مطابق 1100میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھا جس میں صرف 360میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوسکا ، میٹر ریڈنگ کے ذریعے عوام سے زائد بل وصول کیے جارہے ہیں ،ڈبل بینک چارجز وصول کیے جارہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ وفاق سے 400ارب روپے سبسڈی کے نام سے وصول کیے گئے ، فیول ایڈجسمنٹ کا فائدہ عوام کو نہیں ملا ، بوگس وایوریج بلنگ مسئلہ ہے جس میں روزانہ ڈھائی سے تین ہزار افراد شکایات درج کراتے ہیں ، کنڈا سسٹم کا نظام اب تک قائم ہے جس میں غریب عوام کے پیسوں کو لوٹا جارہا ہے ،بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور آئے دن اس کے نظام میں آنے والے فالٹس کی وجہ سے کراچی کی معاشی واقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں بجلی کے بریک ڈائون سے کراچی کو پانی کی سپلائی بھی متاثر ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے شہری شدید گرمیوں میں دہرے عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں اجلاس کے بعد حافظ نعیم الرحمن نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ نج کاری کا عمل قانونی ہے یا نہیں اس کا مالک کون ہے کسی کو نہیں پتہ ، 16ارب روپے میں کے الیکٹرک کو خریدا کیا گیا تھااور اب اسے 150ارب روپے میں فروخت کیا جارہا ہے ، کے الیکٹرک نے دس سال سے کراچی کے عوام کا خون نچوڑ رکھا ہے ، انہوں نے کہا کہ 2009میں جو معاہدے کیے گئے تھے اس کو اب تک عوام کے سامنے نہیں لایاگیا ،کے الیکٹرک نے اپنے ملازمین کی چھانٹی کر کے تعداد 17ہزار سے کم کر کے 10ہزار کر دی ہے لیکن وہ اب تک اضافی ملازمین کے نام پر 15پیسے فی یونٹ کے ذریعے صارفین سے اربوں روپے وصول کر رہی ہے ۔نیپرا جو فیصلے صارفین کے حق میں کرتا ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور جو فیصلے کے۔الیکٹرک کے حق میں ہوتے ہیں اس پر فوراً عملدرآمد ہوجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،اوور بلنگ اور بوگس بلنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ ہم نے سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے، لیکن اس کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں کیے جارہے اور عوام کو ریلیف نہیں دی جارہی ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نیپرا کے الیکٹرک کے گزشتہ دس سالہ معاہدے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کرے جب تک کے الیکٹرک سابقہ رپورٹ عوام کے سامنے نہیں لائے گا اس وقت تک اگلا ٹیرف میں اضافہ کسی صورت بھی نہیں ہونے دیں گے ۔ اگر نیپرا نے کے الیکٹرک کی گزشتہ دس سالہ معاہدے اورکارکردگی کی رپورٹ پیش نہ کی تو کراچی کے عوام سڑکوں پر دھرنا دیں گے ۔اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے سکریٹری عبد الوہاب ،کے الیکٹرک صارفین حقوق کمیٹی کے انچارج عمران شاہد اور سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھےٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سربراہ عادل گیلانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ترمیمی ایگریمنٹ کے تحت ٹیرف بنایا گیا ہے یہ غیرقانونی ہے، ہم نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، اس پر بات نہیں ہونا چاہیے، کنزیومر فورم کے چیئرمین چوہدری مظہر علی نے کہا کہ اس وقت ٹیرف بہت زیادہ ہے، 2013ء میں کے الیکٹرک نے 11؍ہزار 4؍سو ملین یونٹ فروخت کیے اور چھ ارب روپے کا منافع ہوا، 2014ء میں 13؍ہزار 8؍سو ملین یونٹ فروخت کر کے بارہ ارب اٹھاسی کروڑ روپے کا منافع کمایا، بجلی کی فروخت میں صرف 12؍فیصد اضافہ ہوا لیکن پرافٹ میں سو فی صد اضافہ ہو گیا، اس طرح 2015ء میں 14؍ہزار 8؍سو ملین یونٹ فروخت کر کے اٹھائیس ارب روپےمنافع کمایا لیکن بجلی کی فروخت میں صرف 11؍فی صد اضافہ ہوا اور پرافٹ 120؍فی صد تھا اس کا مطلب ہوا کہ موجودہ ٹیرف بہت زیادہ ہے، اُنہوں نے کہا کہ پرانے ٹیرف کو جاری رکھنا صارفین کے مفاد میں نہیں ہے، کراچی چیمبر کے نمائندے تنویر باری، میجر ریٹائرڈ نقوی، انیل ممتاز نے بھی بحث میں حصہ لیا اور بجلی سےمتعلق مختلف مسائل کی نشاندہی کی ، چیئرمین نیپرا بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق سدوزئی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صارفین کے مسائل حل ہوں، نیپرا نے صارفین کے مفاد میں متعدد فیصلے کیے اور بجلی کمپنیوں پر جرمانہ کیے، اجلاس جو کہ کے الیکٹرک کے ٹیرف کے تعین کے لیے منعقد کیا گیا تھا بدھ کو بھی جاری رہے گا، واضح رہے کہ کے الیکٹرک کا موجودہ ٹیرف 2001ءسے 30؍جون 2016ء تک اپنی مدت مکمل کر چکا ہے، کے الیکٹرک نے درخواست کی ہے کہ پرانے ٹیرف کو برقرار رکھا جائے۔
تازہ ترین