جنرل(ر) پرویز مشرف کھلے دل سے سچی بات کرلیتے ہیں۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد اُن کی طرف سے انٹرویوز دینے اور معلومات ظاہر کرنے کے علاوہ خلوص ِ نیت سے تجزیہ کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔مثال کے طور پر 2013میں ابھرنے والے ڈرون مخالف جذبات کے موقع پر، جب حکومت ظاہر کررہی تھی کہ وہ ڈرون حملو ں کی مخالف ہے جبکہ فارن آفس احتجاجی مظاہروں پر اکسارہا تھا تو پرویز مشرف نے ٹھنڈے دل سے اعتراف کیا کہ اُنھوں نے سی آئی اے کو دہشت گردی کی جنگ میں فاٹا میں ڈرون استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیے جانے والے این آراو پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف عدلیہ کے ساتھ تنازع کھڑا ہوگیا بلکہ پاکستان بھی عدم استحکام کا شکار ہوا۔ تاہم مشرف نے اس کی ذمہ داری گجرات کے چوہدریوں پر ڈالی کیونکہ این آر او بنانے کا مشورہ اُنھو ں نے ہی دیا تھا۔ چوہدری صاحبان نے یہ بھی کہا تھا کہ تیسری مرتبہ وزارت ِ عظمیٰ کا حلف نہ اٹھانے کی پابندی برقرار رکھی جائے کیونکہ اس کا اُنہیں سیاسی کیرئیر میں فائدہ ہوسکتا تھا۔
اب تازہ تجزئیےمیں، اُنھو ں نے خود اپنے نامزد کردہ آرمی چیف، جنرل اشفاق کیانی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ اُنھوں نے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ ان کی گریز کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کا نقصان ہوا۔ پرویز مشرف نے کہا کہ جنرل کیانی کے جانشین، جنرل راحیل شریف فیصلہ کن کارروائی کررہے ہیں۔ سابق آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ.....’’جب حکومت غیر فعال ہو تو پھر آرمی چیف کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اسے آمادہ ٔ عمل کرے۔ جنرل راحیل نے بالکل یہی کچھ کیا ہے۔ چاہے جنرل کیانی خوفزدہ ہوں یا ضرورت سے زیادہ محتاط، ایسا دکھائی دیا کہ وہ اس معاملے میں حکومت کو مہمیز دینا نہیں چاہتے تھے۔ ‘‘جنرل مشرف کے خیال میں جنرل کیانی کی یہ پالیسی درست نہ تھی۔
جنرل مشرف نے جنرل کیانی کے روئیے کا اپنے روئیے ، جبکہ وہ اپنے عہدے پر تھے، سے موازنہ کرتے ہوئے کہا .....’’ہم نے فضل اﷲ کے خلاف کارروائی کی اور اُسے شکست دی، 2008ء میں پرامن انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا۔ اُن انتخابات کا ٹرن آئوٹ بہت اچھا تھا۔ عوام کا رد ِعمل اتنااچھا تھا کہ خیبر پختونخوامیں مذہبی جماعتوں کی بجائے عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت سازی کی۔تاہم بعد میں فضل اﷲ واپس آگیا اور لڑکیوںکے تیرہ اسکول تباہ کرڈالے۔ اس کے علاوہ مالم جبہ میں سیاحتی مقام بھی نذر ِ آتش کردیا گیا۔ اس کے باوجود اُس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا یہاں تک کہ وہ شانگلہ کی پہاڑیاں عبور کرگیا اور شاہرائے قراقرم کو کم و بیش بلاک کردیا۔ جب انتہا پسند اسلام آباد سے صرف سو کلومیٹر دور رہ گئے اور عالمی برادری نے شور مچانا شروع کردیا تو ہم خواب ِ غفلت سے جاگے۔ فوج اپنے مقصد میں بہت واضح تھی۔ وہ انتہا پسندوںکے خلاف کارروائی کرنا چاہتی تھی..... کیانی کے دور میں بھی۔ اس لئے جنرل کیانی سے پوچھا جانا چاہئے کہ اُنھوں نے تامل سے کام کیوں لیا۔
دراصل یہی وہ مرکزی سوال ہے جس کا جواب ملنا ضروری ہے۔ یقینا جنرل کیانی طالبان کے خطرے کا ادراک رکھتے تھے ، اس لئے اُنھوں نے کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے ’’ملک کو داخلی خطرے کا سامنا ہے‘‘ کی بات کی۔ درحقیقت جنرل کیانی نے یہاں تک کہا کہ مذہبی انتہا پسندوں سے لاحق خطرہ بھارتی خطرے سے کہیں زیادہ گمبھیرہے۔ اس بیان سے کچھ ناقدین نے یہ مراد لی کہ اب پاک فوج کی ا سٹریٹیجک گہرائی کا مفروضہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب کیانی صاحب تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والے تھے ، لیکن آخری موقع پر ارادہ بدل دیا کیونکہ کچھ سینئر امریکی افسران نے اس کا عوامی سطح پر ذکر کرتے ہوئے کہا اُنھوں نے اپنی ملاقات میں جنرل کیانی کو طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا ہے۔ کیانی صاحب کے دل میں یہ سوچ جاگزیں ہوگی کہ اگر اس وقت ایکشن لیا گیا تو کہا جائے گاکہ ایسا امریکی حکم پر کیا جارہا ہے۔ اُس وقت پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات عروج پر تھے، چنانچہ گریز کرنا ہی بہتر تھا۔تاہم اس گریز کا نتیجہ پاکستان کے لئے بہت مہنگا ثابت ہوا۔ آنے والے مہینوں میں طالبان نے اپنے قدم جمانا شروع کردئیے اور ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی اہل کاروں کا خون بہایا۔ جنرل کیانی نے بھی اس کی خوفناک قیمت ادا کی ، کیونکہ وہ نہ صرف امریکیوں کی نظروں میں اعتماد کھو بیٹھے بلکہ آج پاکستان میں بھی ان پر تنقید کی جارہی ہے۔
جنرل مشرف کا ایسے افراد، جو مارشل لا کا مطالبہ کرتے ہیں، جیسا کہ ایم کیو ایم کے رہنما، کے لئے بصیر ت افروز مشورہ ہے....’’میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں کبھی مارشل لا لگنا چاہئے...... پاکستان تاریخ کی بدترین صورت ِحال کا سامنا کررہا ہے، معیشت کی حالت بہت خراب ہے، تمام صوبے دہشت گردی کی زد میں ہیں...... ملک کے حالات کبھی بھی اتنے خراب نہیں رہے ہیں۔ان حالات میں صرف فوج ہی فعال اورمتحرک فورس دکھائی دیتی ہے۔ اس کی قوت فعالیت میں ہے، لیکن اگر آپ اسے مسلسل استعمال کرتے رہیں گے تو یہ تھکاوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ اتنے سنگین حالات کا سامنا کرنے کی اس کی سکت جواب دینا شروع ہوجائے گی۔ ‘‘
یقینا جنرل (ر) مشرف نے 1999 ء کو ایک فیصلہ کرتے ہوئے ان حالات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اُس وقت ملک میں کوئی سنگین بحران نہیں تھا لیکن سول حکومت کا محض اس لئے تختہ الٹ دیا گیا کیونکہ کارگل کے تباہ کن آپریشن کی وجہ سے جنرل مشرف اور ان کے ساتھی افسران کے کیرئیر خطرے میںتھے۔ نواز حکومت یقینا عقل مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کے اقدامات کی حمایت کررہی ہے۔ اسے جنرل صاحب کے عالمی دوروں پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر جنرل پرویز کی رائے ہے.....’’ایسا جنرل راحیل خود نہیں کررہے ہیں، بلکہ بیرونی ممالک اُنہیں یہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف فوج ہی واحد مستحکم ادارہ ہے، چنانچہ عالمی طاقتیں آرمی چیف کو ہی اہمیت دیتی ہیں۔ جب بیرونی ممالک دیکھتے ہیں کہ سول حکومتوں کی کارکردگی اتنی خراب ہے تو پھر وہ حکومتوں کی بجائے فعال شخصیتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگر آپ نے بیرونی دوروں پر جاکر گم صم ہو کر بیٹھے رہنا ہے تو پھر آپ کو اہمیت کون دے گا۔