• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایس آئی، ایم آئی پرحملے،حافظ سعید اور اظہر مسعود کو قتل کیا جاسکتا ہے، مودی نے ’’را‘‘ کو ذمہ داری سونپ دی

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان کی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کو معلوم ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کیخلاف خفیہ حملے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس میں دہشت گردی کے واقعات، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر کو نشانہ بنانا اور حافظ سعید اور مسعود اظہر کو قتل کرایا جا سکتا ہے۔ ایک سینئر سیکورٹی عہدیدار نے بتایا ہے ہے کہ بھارتی فوجی کمان نے مودی کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کیخلاف سرجیکل اسٹرائیک یا پھر مکمل جنگ کی بجائے، خفیہ کارروائی کی جائے اور یہ مشورہ منظور کر لیا گیا ہے۔ ذریعے نے بتایا کہ اُڑی حملے کے جواب میں را کو ذمہ داری دی گئی ہے وہ خفیہ کارروائی کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل کرے۔ را سے کہا گیا ہے کہ وہ ہدف کے طور پر پاکستان کی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب کرے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ بھی را سے کہا گیا ہے کہ وہ حافظ سعید اور مسعود اظہر کو قتل کرنے کیلئے اپنی کوششوں میں تیزی لائے۔ ذریعے نے کہا کہ بھارتی فوج سے مودی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر میں ’’دہشت گردی کے کیمپس‘‘ پر سرجیکل اسٹرائیک کی تیاری کی جائے۔ اگرچہ فوج نے حملے پر اتفاق کیا اور اپنی سیاسی قیادت کو یقین دہانی کرائی کہ کامیابی کے ساتھ پاکستانی علاقوں میں داخل ہو کر ’’دہشت گرد کیمپس‘‘ پر حملہ کیا جائے گا لیکن بھارتی فوج اس بات کی ضمانت نہ دے سکی کہ حملوں کے بعد وہ کامیابی کے ساتھ واپس بھارت بھی پہنچ سکے گی۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی فوج نے ان تحفظات سے بھی آگاہ کیا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں پاکستانی فورسز گوریلا کارروائیاں بھی کر سکتی ہیں جسے پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ ذریعے نے بتایا کہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے اپنی سیاسی قیادت کو بتایا گیا کہ اس کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان ’’دہشت گردی کیمپس‘‘ کیخلاف کارروائی کر سکتی ہے لیکن اب اس کے حملوں میں حیرانی کا عنصر شامل نہیں۔ اب کوئی کارروائی شروع کی گئی تو اسے پاک فضائیہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستانی رد عمل کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ ذریعے نے بتایا کہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے پاکستان کے خلاف بڑے تنازع میں نہ پڑنے کا مشورہ دیا۔ آئی بی نے اپنے رد عمل میں بتایا کہ پاکستان کے ساتھ بڑا تنازع ہوا تو بھارت کو کشمیر، مدھیا پردیش، دہلی، اتر پردیش، مہاراشٹرا اور ہریانہ کی مسلم آبادی سے شورش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنگ کی صورت میں اس طرح کی شورش کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ذریعے کے مطابق، آئی بی کے رد عمل کے بعد، بھارتی وزارت داخلہ نے آئی بی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہتھیاروں اور اسلحہ اور گولیوں کے متعلق رپورٹ جمع کرے جو مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ پاکستان کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کو ذمہ داری دی گئی ہے وہ مودی حکومت کو ہزیمت سے بچانے کیلئے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے دو چار کرنے کو یقینی بنائے۔ اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو کم از کم بھارتی  ناظرین کو تسلی دینے کو یقینی بنایا جائے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے مودی حکومت کی پاکستان کیخلاف حکمت عملی پر اپوزیشن جماعت کانگریس کو اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کی لیکن سونیا گاندھی نے تعاون سے انکار کر دیا۔ بعد میں کہا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی کو منانے کیلئے سلمان خورشید سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس معاملے میں تعاون سے انکار کر دیا۔ پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ بھارت کے رد عمل کے آپشنز میں کنٹرول لائن عبور کیے بغیر ہی آزاد جموں و کشمیر کے کچھ حصوں کو ٹارگٹ کرنا شامل ہو سکتا ہے اور اس میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا سکتی ہے؛ اس کے علاوہ اسلام آباد سے بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بلانا یا پاکستانی ہائی کمشنر کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دینا، سارک اجلاس کا بائیکاٹ کرنا، لشکر طیبہ یا جیش محمد کی اہم شخصیات کو ختم کرنے کیلئے خفیہ کارروائی کرنا، بلوچستان میں تحریک طالبان کے ذریعے دہشت گرد کارروائی کرانا، کے پی، فاٹا میں آرمی یا آئی ایس آئی کے ٹھکانوں پر حملے کرانا، گلگت بلتستان میں خفیہ کارروائی کرانا، بلوچستان میں سی پیک کو نقصان پہنچانا یا گوادر پر حملہ کرانا شامل ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین