• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کارپوریٹ پاکستان گروپ (CPG) کارپوریٹ سیکٹر کی 180کمپنیوں کے سربراہان پر مشتمل ایک گروپ ہے جو اہم ملکی معاشی ایشوز پر حکومتی اداروں کے سربراہان کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے تاکہ اس سیکٹر کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ سیکٹر کو حکومتی پالیسیوں اور ترجیحات سے آگاہی ہو۔ اس گروپ میں میرے علاوہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سینئر ایگزیکٹوز، وفاقی وزراء، سیکریٹریز، دفاعی تجزیہ نگار، معیشت دان، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، بزنس کمیونٹی کے لیڈرز اور سرمایہ کار شامل ہیں۔ گروپ کے روح رواں نٹ شیل فورم کے اظفر احسن ہیں جو ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی مینجمنٹ کانفرنسیں منعقد کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کارپوریٹ گروپ نے اس بار پاکستان کے پاور سیکٹر پر پریذنٹیشن دینے کیلئے وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی محمد یونس ڈاگا کو کراچی میں مدعو کیا جو خود بھی سی پی جی کے ممبر ہیں۔ پریذنٹیشن میں میرے علاوہ ایس ایم منیر، امین ہاشوانی، اظفر احسن، مجید عزیز، عمیر بیگ، فواد جاوید، ظفر سبحانی، اینگرو اور مٹسوبشی کارپوریشن کے سربراہان اور کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔کارپوریٹ پاکستان گروپ اس سے قبل ایف بی آر کے چیئرمین نثار محمد خان کو میٹنگ کیلئے مدعو کرچکا ہے جس پر میں نے گزشتہ دنوں ایک کالم ’’رئیل اسٹیٹ کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم‘‘ لکھاتھا۔
پاکستان کا پرائیوٹ سیکٹر سی پیک منصوبوں کے علاوہ اپنے طور پر بھی پاور سیکٹر میں وسیع سرمایہ کاری کررہا ہے جس میں تھرکول، ایل این جی ٹرمینل، پن بجلی، شمسی، کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں لیکن تیکنیکی بنیادوں پر ان منصوبوں میں کچھ رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔ یونس ڈاگا میرے قریبی دوست اور ایک قابل وفاقی سیکریٹری ہیں۔ ملکی پاور سیکٹر کی بحالی میں یونس ڈاگا کا اہم کردار ہے جو اس سے قبل صوبہ سندھ کے مختلف محکموں میں سیکریٹریز تعینات رہ چکے ہیں۔ یونس ڈاگا نے یہ کہتے ہوئے اپنی پریذنٹیشن کا آغاز کیا کہ 2018ء میں ملک سے لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی لیکن ساتھ ہی انہوں نے 1985ء میں پاکستان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے ایک اخباری بیان کی ہیڈ لائن بھی دکھائی جس میں 1986ء تک ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یونس ڈاگا نے بتایا کہ ڈاکٹر محبوب الحق کے مذکورہ بیان کے 30 سال بعد بھی ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا، اس لئے 2018ء میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے حکومتی دعوے پر یقین کرنا آپ کیلئے مشکل ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ (ن) لیگ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سہرا لے کر آئندہ انتخابات لڑنا چاہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2013ء میں جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کو 5500 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا جس کی وجہ سے صنعتوں اور گھریلو صارفین کو 12 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں 14 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا۔ تیل، گیس اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے گردشی قرضے 480 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے جس کی وجہ سے بجلی گھر ایندھن کی سپلائی میں کمی کے باعث اپنی استطاعت سے کم بجلی پیدا کررہے تھے۔ حکومت نے جون جولائی 2013ء میں 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی یکمشت ادائیگی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے بلوں کی وصولی کو موثر بنایا اور ٹی اینڈ ڈی نقصانات میں کمی کی جس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور صنعتوں کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا جبکہ موبائل میٹر ریڈنگ اور شکایتوں کے جدید نظام کے ذریعے کسٹمرز سروس میں بہتری لائی گئی جس کی وجہ سے 2015ء میں ٹی اینڈ ڈی نقصانات 10 سالوں میں سب سے کم 18% پہنچ گئے جبکہ اسی دورانئے میں پرائیوٹ ادارے کے الیکٹرک میں ٹی اینڈ ڈی نقصانات 24% تھے۔ اسی طرح AT&C نقصانات کم کرکے 23.4% تک لائے گئے جبکہ بھارت میں یہ 26% ہیں۔ اسی دوران بلوں کی وصولی 93.4% تک پہنچ گئی جو گزشتہ 10 سالوں میں سب سے زیادہ تھی جس سے حکومت کو 51 ارب روپے کے اضافی ریونیو حاصل ہوئے۔ ان اصلاحات سے ملکی گردشی قرضے دسمبر 2015ء میں 329 ارب روپے تک کنٹرول کئے گئے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل، آئی پی پیز اور گیس کمپنیوں کی ادائیگی میں قابل قدر اضافہ کیا گیا اور تیل و گیس کی مطلوبہ سپلائی سے 2015ء میں 16866 میگاواٹ کی ریکارڈ بجلی پیدا کی گئی جس میں آئی پی پیز کی 12113 میگاواٹ کی بجلی کی پیداوار شامل تھی۔
یونس ڈاگا نے بتایا کہ سی پیک کے انرجی منصوبوں کے ذریعے 2016ء میں زونرجی سولر پروجیکٹ کے ذریعے 300 میگاواٹ، 2017ء میں پورٹ قاسم کول پاور پروجیکٹ سے 660 میگاواٹ، ساہیوال کول پاور پروجیکٹ سے 660، زونرجی سولر پروجیکٹ سے 600 میگاواٹ، دائود ہائیڈرو چائنا، سچل اور یو اے پی کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پروجیکٹس سے 200 میگاواٹ بجلی پیدا کرکے 2017ء میں 2120میگاواٹ اضافی بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ 2018ء میں پورٹ قاسم کول پاور پروجیکٹ سے 660 میگاواٹ، اینگرو تھر کول پاور پروجیکٹ سے 330 میگاواٹ اور ساہیوال کول پاور پروجیکٹ سے 660میگاواٹ بجلی پیدا کرکے 2018ء میں 1660 میگاواٹ اضافی بجلی کی پیداوار متوقع ہے اور اس طرح درج بالا سی پیک منصوبوں سے 2018ء تک مجموعی 4070 میگاواٹ اضافی بجلی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ دیگر ہائیڈرو پروجیکٹس جن میں نیلم جہلم 969 میگاواٹ، چشمہ نیوکلیئر 680 میگاواٹ، سی پیک کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے 1080 میگاواٹ، تربیلا IV سے 1679 میگاواٹ، ایل این جی کے 1200 میگاواٹ کے تین منصوبوں سے 3600 میگاواٹ، بگاسی پاور پروجیکٹس سے 390 میگاواٹ کے منصوبوں سے 2018ء تک مجموعی 8478میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکے گی، اس طرح سی پیک اور دیگر منصوبوں کے ذریعے 2018ء تک مجموعی 12568 میگاواٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے جس کی بنیاد پر حکومت نے 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
2016ء میں بجلی کی موجودہ پیداوار19917 میگاواٹ ہے جس میں فرنس آئل سے 30%، ہائیڈل سے 36%، قدرتی گیس سے 20%، ایل این جی سے 8% جبکہ نیوکلیئر اور دیگر ذرائع سے 6% بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2022ء تک بجلی کی پیداوار 30948 میگاواٹ ہوجائے گی جس میں ہائیڈل 38%، درآمدی کوئلے سے 16%، مقامی کوئلے سے 13%، درآمدی ایل این جی سے 12% جبکہ نیوکلیئر اور دیگر ذرائع سے 21% بجلی پیدا کی جائے گی جس سے ہماری بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور ہمارا اوسط انرجی مکس بہتر ہوگا۔یونس ڈاگا نے بتایا کہ پاکستان کے پاور سیکٹر میں 2022ء تک تقریباً 58.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے ہمارا پاور سیکٹر جدید خطوط پر استوار ہوجائے گا۔سوال جواب کے سیشن کے دوران میں نے وفاقی سیکریٹری یونس ڈاگا کی توجہ بجلی پیدا کرنے کے علاوہ پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لائنز اور گرڈ کی ضرورت پر دلائی جس کے ذریعے اضافی پیدا کی جانے والی بجلی مختلف جگہوں پر پہنچائی جاسکے۔ موجودہ حالات میں اضافی گرڈ کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گروپ سمیت ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے 2018-19ء تک ملتوی کردیئے گئے ہیں جس سے سرمایہ کاروں کو نقصان ہورہا ہے۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر اپنے ذرائع سے بجلی کے ان منصوبوں میں جوائنٹ وینچرز کے ذریعے سرمایہ کاری کررہا ہے لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منصوبوں کے راستے میں حائل تمام تیکنیکی رکاوٹیں ترجیحی بنیادوں پر دور کرے کیونکہ اگر سرمایہ کاروں نے تاخیر کی بناء پر اپنے منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا تو یہ منصوبے التواء کا شکار ہوجائیں گے جس سے حکومت کا پاور سیکٹر کیلئے دیا گیا ایجنڈا شدید متاثر ہوگا۔
نوٹ: میرے گزشتہ کالم ’’دنیا میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت‘‘ پر بے شمار قارئین کی ای میلز موصول ہوئیں جس میں انہوں نے کالم کو سراہتے ہوئے غلطیوں کی نشاندہی بھی کی جس پر میں ان کا مشکور ہوں۔ شفقت کھیر اور حمزہ ہاشمی نے بتایا کہ 2014ء کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 2.9 ملین، فرانس 6.13 ملین اور جرمنی 4.03 ملین ہے۔ اسی طرح بھارتی اداکار دلیپ کمار پیدائشی طور پر مسلمان ہیں جو پشاور میں پیدا ہوئے اور ان کے والد کا نام غلام سرور ہے جنہیں لالہ کہا جاتا تھا۔


.
تازہ ترین