انسان کی زندگی میں دو طرح کے واقعات رونما ہوتےہیں جو اسکی شخصیت اور کردار کو متعین کرتے ہیں ان میں کچھ بائی چانس یا اتفاقیہ اور کچھ بائی چوائس یا خود اختیاری کے زمرے میں آتے ہیں۔ بائی چانس یا اتفاقیہ طور پر رونما ہونے والے واقعات میں والدین ، خاندان ، ذات برادری ، شکل و صورت ، رنگ و نسل ، زبان، ملک اور مذہب شامل ہیں کہ ان میں سے کسی پر بھی انسان کا اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں اسکی خواہش کا عمل دخل ہوتا ہے۔ بھیجنے والا اسے جہاں بھیجنا چاہتا ہے اسے وہاں آنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اتفاقیہ طور پر رونما ہونے والے واقعات و خصائل انسان کےلئے نہ تو باعثِ افتخار ہوتے ہیں اور نہ ہی باعثِ ندامت ۔ دوسری طرف وہ واقعات ، عوامل اور راستے ہیں جن پر انسان اپنی مرضی یعنی چوائس سے چلتاہے یا انہیں اختیار کرتا ہے۔ ان میں پیشے کا انتخاب ، تعلیم و ہنر، تحقیق و جستجو اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات و برتائو کی نوعیت شامل ہیں۔ چونکہ یہ وہ کام ہیں جن پر قدرت نے اسے انتخاب کی مکمل آزادی دی ہے لہٰذا انسان کی اپنی مرضی اور چوائس سے حاصل ہونے والے عوامل جو درحقیقت اسکی شخصیت اور کردار کی حتمی تشکیل کرتے ہیں وہی انسان کےلئے باعثِ افتخار یا باعثِ ندامت ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی وجہ سے انسان معاشرے کے لئے ضرر رساں یا سود مند ثابت ہوتا ہے۔انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیّہ یہ ہے کہ بائی چانس اور بائی چوائس کی تشریح اور ترجیح کے حوالے سے پیدا ہونے والے ’’ مغالطے‘‘ نے اسے بارہا سلامتی اور ترقی کے راستے سے بھٹکا کر تباہی اور بربادی کی راہوں پر گامزن کردیا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان کی ہر دشمنی ، مخاصمت اور جنگ کے پیچھے اسی مغالطے کا ہاتھ ہے۔ہم آج کے مہذّب اور ترقی یافتہ دور میں بھی دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگوں میں خاندان ، حسب و نسب اور ملک و مذہب جیسی بائی چانس خصوصیات پر زیادہ عزّت و افتخار کا اظہار کیا جاتا ہے اور اسکے اختلاف پر دوسرے انسانوں سے نفرت کی جاتی ہے۔ حالانکہ بائی چانس رونما ہونے والے واقعات و عوامل کی حیثیت آپکی ظاہری پہچان اور شناخت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں جیسا کہ آپ کا نام اور ایڈریس ہوتا ہے۔ کیا کسی انسان کا محض نام یا پتہ اس کے حقیقی کردار کی واحد نشانی بن سکتا ہے؟۔ یہ اندازِ فکر اس وقت انتہائی مضر رساں ہو جاتا ہے جب انسان کی زندگی اور آخرت کے بارے میں فیصلے بھی اسی بنیاد پر صادر کئے جانے لگتے ہیں،گویا اس میں عمل کو بالکل خارج کردیا جاتا ہے جو ایک بائی چوائس یا خود اختیاری فعل ہے اور جو انسان اور معاشرے کی کردار سازی کےلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی کم علمی اور جہالت کیوجہ سے اتفاقیہ یا بائی چانس چیزوں کو چوائس پر ترجیح دیتے ہیں۔ انسان کی نجات، سزا اور جزا کا فیصلہ بھی پیدائش پر ہی صادر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اس فیصلے کا صحیح وقت انسانی زندگی کے اختتام یا موت پر ہوتا ہے۔ یہ کتنی غیر حقیقی اور غیر منطقی بات ہے کہ منصفوں کے منصف ربّ ِ ذوالجلال سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ انسان کو اس کے حسب ونسب اور پیدائشی عوامل کی بنیاد پر ہی سزا و جزا دے گا جس میں نہ تو اس کا کوئی عمل دخل ہے ،نہ قصورنہ کارنامہ۔ اس ایک سیدھے سادھے نکتے کی غلط تشریح نے انسانی معاشروں کو تباہ کردیا ہے۔ انسان آج تک خاندان ، حسب و نسب اور ملک و مذہب کی برتری کے زعم میں اپنے لئے تباہی کے گڑھے کھودتا رہا ہے ۔ بنی اسرائیل خود کو خدا کی محبوب ترین قوم قرار دیکر دوسری قوموں سے نفرت کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے اُن کے خلاف بھی دوسرے لوگوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہے اور تاریخ میں کئی مرتبہ ان کی نسل کشی کی کوششیں بھی ہوئیں۔ دنیا میں مذہبی بنیادوں پر دو قومی نظریے کی خالق بنی اسرائیل ہی تھی جنہوں نے پوری دنیا کو یہودی اور غیر یہودی میں تقسیم کردیا تھا۔ جسکی وجہ سے بے انتہا خون خرابہ ہوا۔ بعد میں یہی عمل عیسائیوں نے دہرانا شروع کردیا۔ جسکی خدا نے قرآن پاک میں ان الفاظ سے مذمّت کی ’’ اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ کوئی جنّت میں نہیں جانے کا یہ ان کے خیالات ِ باطل ہیں۔ مگر جو ایمان کے ساتھ نیکو کار بھی ہو۔۔۔۔(سورہ بقرہ 111-112)مگر افسوس کہ اس انتباہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی یہی عمل دہرانا شروع کردیا اور عمل کو پسِ پشت ڈالکر اتفاقات کا سہارا لینا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے ان کے معاشرے تیزی سے روبہ زوال ہوگئے۔ خاندانی حسب و نسب اور ملک و مذہب کے حوالے سے جنگ و جدال کا طویل سلسلہ محض دورِ جہالت تک ہی محدود نہیں بلکہ بیسویں صدی میں جرمنی کے چانسلر ایڈولف ہٹلر نے ’’ برتر جرمن قوم‘‘ کے نظریے کے ذریعے پوری دنیا کو جنگِ عظیم دوم جیسی ہولناک تباہی سے دوچار کردیا۔ جس میں سب سے زیادہ نقصان خود جرمن قوم کو اٹھانا پڑا۔ کوئی انسان یا قوم محض اپنی بائی چانس یا اتفاقیہ عوامل کی بنیاد پر برتر یا کم تر نہیں ہوسکتی اس کا دارومدار صرف اور صرف اس کی تعلیم و تربیت اور اچھے اخلاق و کردار پر ہے جو کہ ایک خود اختیاری یا بائی چوائس عمل ہے۔ عمل کی اہمیّت کو واضح کرنے کےلئے ہی آخری خطبے میں ہمارے پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے اعمال کے’’ گویا جس کے عمل اچھے ہوں گے ، جو دوسرے انسانوں کے لئے باعثِ رحمت ہوگا۔ اس کا تعلق چاہے کسی بھی حسب و نسب ، رنگ و نسل یا مذہب و ملّت سے ہو وہی انسان دوسروں سے افضل ہوگا۔ کیونکہ خدا ربّ العالمین ہے اور وہ تمام انسانوں کا بھلا چاہتا ہے جو اسکی محبوب ترین تخلیق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں میرٹ کی بنیاد پر علم و ذہانت اور اچھے کردار کی بجائے ذات برادری ، نسل و رنگ اور مسلک و عقیدت جیسے اتفاقات پر ہو وہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔ اور بالآخر ان میں تقسیم در تقسیم کا ایسا منفی عمل شروع ہو جاتا ہے جو بدامنی ، فساد عدم مساوات اور حق تلفی کو فروغ دیتا ہے جس کے ہاتھوں تاریخ میں کئی قومیں اور معاشرے تباہ برباد ہو کر عبرت کی مثال بن چکے ہیں۔ اسی میرٹ کی خلاف ورزی پر ہی کرپشن فروغ پاتی ہے کیونکہ جب اصل حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا، تو معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوجاتا ہے جو ہر طرح کے جرائم کا سبب بنتا ہے۔