بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر کی پاکستان آمد اور باہمی مذاکرات کے بعد اہم تنازعات کے حل ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے یا نہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا کیونکہ 1954ے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے اتنے ادوار ہو چکے ہیں کہ نصف صدی سے زائد کی تاریخ کا پورا ریکارڈ سامنے رکھے بغیر ان کا شمار مشکل ہے۔ تاہم ایک بات مسلم ہے کہ دراندازی کا جو پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے اس سے زیادہ بھارت ملوث ہے۔ دوسرا امکان ہے سارک کی اگلی سربراہی کانفرنس کی جس کا انعقاد پاکستان میں ہونا ہے راہ میں بھارت بلاوجہ کی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا اور سب سے بڑھ کر انہی ایام میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے خاموش تعاون کے بغیر بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات بھی نہیں کراسکتی۔ نئے اور بی جے پی کے اتحادی وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے اس مضمون کا بیان دے کر پورے بھارت میںتہلکہ مچا دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی پارلیمنٹ کے ایوان یا پھر راجیہ سبھا کے ایوان میں کھڑے ہو کر مفتی سعید کے بیان پر اس وقت تنقیدی جملے ادا کرنے پڑے جبکہ ان کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کو ابھی دو روز نہیں گزرے تھے۔ لیکن مقبوضہ ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر تنقید کو مسترد کردیا ہے کہ انہوں نے جو کہنا تھا برملا کہا اور اپنے بیان پر قائم ہیں۔
مفتی سعید کا ذکر چل نکلا ہے تو یہاں یہ کہنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ نریندر مودی جو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ازسر نو ڈول ڈالنے پر مجبور ہوئے ہیںاس میں ان کے دبائو نے بھی کام دکھایا ہے۔ انہوں نے ریاست کے اندر بھارتیہ جتنا پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے کی جو شرائط پیش کیں ان میں ایک یہ تھی۔ بھارتی وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی ضد ترک کردیں گے اور جلد از جلد مذاکراتی عمل کا آغاز کریں گے۔ دوسرا دبائو نریندر مودی پر صدر اوباما کی جانب سے امریکی صدر کے گزشتہ ماہ فروری میں دورہ بھارت کے دوران پس پردہ مذاکرات کے ذریعے ڈالا گیا۔ امریکہ کا مقصد ان مذاکرات کے انعقاد سے تنازع کشمیر کا منصفانہ حل نہیں ہوتا بلکہ جب بھی امریکہ نے بھارت کی جانب جھکائو ظاہر کیا ہے اس نے پاکستان کو مطمئن کرنے کی خاطر دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی نمائندوں کو آمنے سامنے بٹھانے کی سعی کی ہے۔1962میں جب عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ بھارتی جنگ کے موقع پر امریکہ نے بھارت کو سوویت یونین کا قریبی دوست ہونے کے باوجود جدید ترین اسلحہ مہیا کرنا شروع کیا تو پاکستان کے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ جن کے راولپنڈی کے بعد نئی دلی میں کئی ادوار ہوئے جو آخر کار بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ اسی طر2003میں بھارتی پارلیمینٹ پر نامعلوم دہشت گردوں کے حملے کے بعد جب پاکستان اور بھارت کی فوجیں جنگ کے لئےتیار حالت میں آمنے سامنے کھڑی ہوگئی تھیں تو ایٹمی طاقت کے حامل دو ملکوں کے درمیان جنگ امریکہ کے عالمی مفاد میں نہ تھی اس لئے اس وقت کے نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹج نے اسلام آباد پہنچ کر ہمارے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف سے ملاقات کی ۔ اس کے فوراً بعد نئی دلی کے لئے اڑان بھری اور بیان جاری کیا کہ مشرف حکومت کی جانب سے انہیں یقین دلایاگیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اس جانب اول تو دہشت گردوں کا کوئی کیمپ باقی نہیں رہنے دیا گیا اگر ایک آدھ موجود ہے تو اسے جلد ختم کردیا جائے گا۔ اس کے بعد جنوری2004 میں واجپائی پاکستان کے دارالحکومت آئے، اعلان اسلام آباد جاری ہوا۔ نہایت باخبر حلقوں کا اس وقت کہنا تھا کہ اعلان اسلام آباد کا اصل مسودہ امریکی دفتر خارجہ نے تیار کیا تھا۔ مشرف اور واجپائی نے معمولی ترمیمات کے بعد اس پر دستخط کردیئے۔ پاکستان و بھارت کے داخلی معروضی حالات نے جن مذاکرات کو ممکن بنایا وہ 1999میں واجپائی کی بس پر لاہور آمد تھی تب بھارت کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرکے برابر کی قوت ہونےکا اعلان کردیا تھا۔ بھارت کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا چنانچہ اس کے وزیر اعظم پاکستانی ہم منصب نواز شریف کی دعوت پر کشاں کشاں نہ صرف لاہور آئے بلکہ سیدھے مینار پاکستان پر گئے۔ اپنے الفاظ میں پاکستان کی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ نواز اور واجپائی کے درمیان ایک سال کے اندر تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے بھی مفاہمت ہوئی۔ لیکن اس عمل کو کارگل کی مہم جوئی اور 12اکتوبر 1999 کے شب خون نے ہضم کر لیا۔
تاہم مقبوضہ کشمیر کے اندر تازہ ترین انتخابات کے نتائج نے جو معروضی صورت حال پیدا کی ہے اس میں 1954 کے بوگرہ نہرو مذاکرات کا ذکر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تب بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف کی راہ اختیار کرلی تھی۔ 1654 کے مذاکراتی دور میں طے ہوا کہ دریا ئے چناب کو تقسیم کی بنیاد بنا کر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آبادی والے حصے (وادی) کو پاکستان کے سپرد کردیا جائے جبکہ ہندو آبادی والا حصہ (جموں کا علاقہ) بھارت کے پاس رہے۔ یہ مفاہمت کچھ آگے بڑھی تو نہرو حکومت کو احساس ہوا کہ کشمیر کا بڑا حصہ اور آبادی تو پاکستان کے پاس چلی جائے گی۔ پانیوں کے چشمے (دریا) بھی اس کی دسترس میں آ جائیں گے۔ بھارت نے جلد چناب فارمولے سے بھی منہ موڑ لیا۔ اب آیئے تازہ ترین انتخابی نتائج کی جانب ان میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو 28نشستیں ملی ہیں اور یہ سب کی سب وادی کی مسلمان آبادی کے ووٹوں کی مرہون منت ہیں۔ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو ملنے والی نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ نریندر مودی کی زبردست انتخابی مہم کے نتیجے میں جموں کے ہندوئوں نے متحد ہو کر بی جے پی کو 25نشستیں دلوائی ہیں۔ گویا آج کا مقبوضہ کشمیر سیاسی لحاظ سے 1954 کے چناب فارمولے کے خطوط پر تقسیم ہوگیا ہے۔ تنازع کشمیر کا اگرچہ اصولی اور معیاری حل سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت رائے شماری ہے لیکن اس سے ذرا نیچے اتریں تو چناب فارمولا معروضی زمینی حقائق سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ آج مقبوضہ ریاست کے سیاسی حالات اس فارمولے کی منہ بولتی تصدیق کر رہے ہیں۔ اگر وزیراعلیٰ مفتی سعید اور حریت کانفرنس کی تمام قیادت ایک مشترکہ موقف پر ڈٹ جائیں تو پاکستان کے تعاون کے ساتھ تنازعے کے حل کی قابل عمل راہ نکل سکتی ہے۔