صاحبو!
سپریم کورٹ سے آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ آنے پر ہمارے عظیم سیاستدان خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ وہ ان فیصلوںکوپارلیمینٹ کی بالادستی اور انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں مگر ہمیں تو یہ سب کچھ سرداروں کی بس کا منظرلگتاہے! کیسے ؟آیئے دیکھتے ہیں۔
خالصہ ٹرانسپورٹ کی بس، لاری اڈے سے نکلی تو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ہرنام سنگھ بھی سوار تھا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ پر ایک اکالی نہنگ (کٹر سکھ) بیٹھا ہوا تھا۔ بس چلی تو کنڈکٹر نے سواریوں سےپیسے وصول کرکے ٹکٹیںدینا شروع کیں۔ ہرنام سنگھ کی سیٹ کے برابرمیں بیٹھے ایک شخص سے کنڈکٹر نے پوچھا۔
’’آپ کہاں جائیں گے؟‘‘
مسافر نے جواب دیا ’’مجھے ایک ٹکٹ آنند پور کی دے دو‘‘
یہ بات سن کرہرنام سنگھ کے ساتھ بیٹھے اکالی سکھ کو غصہ آگیا۔ اس نے آنند پور جانے والے مسافر کے منہ پر رکھ کر ایک تھپڑ رسیدکیااورکہا،
’’اوئے تجھے پتہ نہیں..... آنند پور ہمارے مذہب میں ایک مقدس مقام ہے۔ اس لئے آنند پور صاحب کہہ کر نام لے!‘‘
تھپڑ کھانے والا مسافر چپکا ہو کر بیٹھارہا۔ کنڈکٹر نے اگلے مسافرسے پوچھا۔
’’بھائی صاحب..... آپ نےکہاں جانا ہے؟‘‘
وہ مسافر، اکالی کاتھپڑ دیکھ چکاتھا، اس لئے کہنے لگا،
’’مجھے جالندھرصاحب جانا ہے؟‘‘
اکالی سکھ پھراٹھا، اس نے ایک تھپڑ جالندھر جانے والے کو بھی رسیدکردیااورکہا،
’’اوئے جالندھرکہاں کا مقدس شہر ہے، جو تو اسے جالندھر صاحب کہہ رہا ہے!‘‘
دوسرامسافر بھی تھپڑ کھاکر خاموش رہا۔ اب باری تھی ہرنام سنگھ کی!کنڈکٹر نےاس سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے۔ہرنام سنگھ دوتھپڑ لگتے دیکھ چکا تھا۔ وہ پیسے کنڈکٹر کو پکڑاتے ہوئے بولا،
’’بھاجی..... آپ پیسے مجھ سےلے لیں..... کہاں جانا ہے؟ وہ آپ ان اکالی صاحب سے پوچھ لیں!‘‘
تو صاحبو! ہمارے سیاستدانوں کی بس بھی 1947 سے رواں دواں ہے۔ سب کے مقدس استھان اپنے اپنے..... کسی کے لئے لاڑکانہ مقدس شہر ہے تو کوئی لاہور کےلاہور شریف ہونے پربضد! کسی کے لئے 90مقدس ہے تو کوئی سارا تقدس ملتان شریف کو دینے پر اڑا رہا۔کوئی میٹرو بس کو تعظیمی سجدہ کرانےپر مصر ہے۔ ہزارے وال جرنیل ایوب بس میں سوارہوا تو اس نےکراچی کو صاحب ماننے سےانکارکردیا اور بس کو ’’اسلام آباد صاحب‘‘ کے روٹ پر چلا دیا۔اسلامی جرنیل ضیا الحق آیا تو اس نے سارا تقدس قتل و غارت سے وابستہ کردیا۔ بس سوار سیاستدانوں کی اس دھینگا مشتی میں تماش بین عوام ہی کچلے جاتے رہے!
مگر اب سیاستدانوں کی اس بس میں ایک ’’اکالی‘‘ بھی سوار ہو گیا ہے، جو دھڑا دھڑ تھپڑ رسید کر کے سیاستدانوں اور سیاست کاروں کا تاریخ اور جغرافیہ درست کر رہا ہے!
ملکی اداروں میں ’’بھل صفائی‘‘ کی جو مہم شروع ہوچکی ہے اس کا آغازانتہائی معصومانہ انداز میں کیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے گائوں میں نائی بچے کے ختنے کرتے ہوئے، اسے پھسلاتے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے۔
’’وہ دیکھو ..... کاں (کوّا)‘‘
بچہ آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو پلک جھپکنے میں نائی کا اُسترا کام دکھا جاتا ہے۔
آغاز تو ’’ضرب عضب‘‘ سے ہوا۔ سیاست دانوں کو دہشت گردوں کا کوّا دکھایا۔ یہ خالصتاً ایک جنگ تھی جس میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو ملیا میٹ کردیا گیا۔ پھر شہروں میں موجود دہشت گردوں کا ’’کوّا‘‘ دکھایا گیا۔ جس کے نتیجے میں ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ بنا۔آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔ سندھ میں کام شروع ہوا تو پہلا ’’جھانپڑ‘‘ الطاف حسین کو لگا ، دوسرا آصف زرداری کو، دونوں ابھی تک اپنے اپنے گال سہلا رہے ہیں۔ بلوچستان میں پے در پے تھپڑ لگے تو کچھ سکون ہوا۔ پھر ’’معاشی دہشت گردی‘‘کاکوّا دکھایا اور اُسترا چلانا شروع کیا۔ دوسری طرف فوج نے اپنے دو ریٹائرڈ جرنیلوں کو نوکریوں پر بحال کرکے انہیں سزائیں دیں۔
جو سیاستدان آج خوش ہو کر بغلیں بجا رہے ہیں، انہیں نوید ہو کہ ابھی بہت سے ’’کوّے‘‘ دکھائے جانے باقی ہیں۔ ’’بھل صفائی‘‘ کا یہ سلسلہ رُکتا نظر نہیں آتا۔ حکومت اور سیاست کی بس میں سوار لوگوں میں سے شاید ہی کسی کا دامن صاف ہو..... اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں اس لئے ان فوجی عدالتوں کے قیام پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں! یہ عدالتیں تو دہشت گردوں کے لئے ہیں مگر نئے ’’کوّے‘‘دکھائے جائیں گے تو نئی عدالتیں بھی بنیں گی.... ان میں شاید ان بس سواروں کے کیس بھی چلیں۔
نیک تمنائیں سب کے لئے ..... مگر بھل صفائی کی یہ مہم جاری رہنی چاہئے اور ’’اکالی صاحب‘‘ کو تھپڑ مارتے رہناچاہئے..... جو لوگ ان تھپڑوں کی زدمیں آرہے ہیں، ان کے لئے اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے، خدا ذلیل کرے!