عوام کے اجتماعی شعور کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ حالانکہ یہ جانتے ہوئے بھی سیاستدان لیڈر اور اپنے آپ کو بیدار مغز سمجھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی چالوں اور رویوں کو عوام نہیں سمجھتے ایسا سوچتے ہوئے وہ بڑی غلطی کررہے ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر چال کے پیچھے کوئی اور ہے حکم کہیں سے آرہا ہے اور حکم نامہ جاری کہیں اور سے ہورہا ہے۔ سیاسی لیڈروں کو حکمرانوں کو اور اداروں کے کل پرزے چلانے والوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ عوام کا ایک ہی فیصلہ ساری چالاکیوں کو اور بساط کو الٹ دیتا ہے قارئین نے اسلام آباد میں سیاسی تھیٹر کا حشر دیکھا اس کی ابتدا سے لیکر انتہا تک عوام کو اس کھیل کے بارے میں معلوم تھا۔ وہ کس نے شروع کیا اور کس نے ختم کرایا وہ عوام کے اشتعال اور نفرت کے رویوں کو حد سے بڑھانے کی ناکام کوشش تھی۔یہ یاد رکھئے کہ نفرت کی اور اشتعال کی سیاست کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ حالانکہ وہ جنگ جو نفرت اور اشتعال کے جذبات سے مغلوب ہوکر لڑی جاتی ہے وہ ناکام و نامراد ہوتی ہے آپ کے سامنے افغان جنگ ہے اس کا کوئی نتیجہ باہر سے آکر لڑنے والوں کے حق میں نہیں نکلا ان کا غصہ ان کی نفرت کا پھل ناکامی کی صورت میں ملا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 1948ء سے نفرت کی جنگ لڑ رہا ہے کیا وہ کشمیریوں کے دل بدل سکا انہیں پاکستانی جھنڈے لہرانے سے روک سکا۔دیکھئے تحریک انصاف جو کل تک ایک مضبوط چٹان نظر آرہی تھی اس کے اندر دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں عمران خان کو اس کی امید نہیں تھی ان کے اندر عدم استحکام پیدا ہورہا ہے جو آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کو دھرنے سے کیا ملا جوڈیشنل کمیشن ! جس کے بارے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے ادھورا کام چھوڑ دیا میرے خیال میں جوڈیشل کمیشن کو اتنا ہی کام کرنا تھا۔ عوام اس حقیقت سے واقف تھے پس بات تو یہ ہے کہ عمران خان کا جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرنا ہی غیر سیاسی اقدام تھا انہیں سیاسی ایشو کو پارلیمنٹ میں سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اب وہ پھر ایک آئینی اور قانونی ایشو کو سیاسی طور سے حل کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت اور ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے ممبران پارلیمنٹ کے ممبر نہیں رہے اس سے پہلے کہ معاملہ بگڑ جائےحکومت کو اس سلسلے میں ریفرنس سپریم کورٹ بھجوانا چاہے تاکہ آئینی پوزیشن واضح ہوجائے اس کیلئے آئین کے آرٹیکل 183 سب سیکشن 3 میں ہدایت موجود ہے۔ درحقیقت حکومت ہی نہیں بلکہ کوئی بھی پاکستان کا شہری سپریم کورٹ میں درخواست دے سکتا ہے۔جمہوریت آئین اور قانون کی عملداری سے ہی قائم رہ سکتی ہے اب اس قانونی مسئلے کو سپریم کورٹ میں ریفرنس کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ جن ممبران کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد وہ پارلیمنٹ کے ممبر نہیں ہیں نہ اس ایشو کو حکومت حل کرسکتی ہے نہ اسمبلی اس کو حل کرسکتی ہے۔ اس کا حل آئین میں ہے، سپریم کورٹ ہی اس مسلئے کو حل کر سکتی ہے۔اگر اس ایشو کو آئینی اور قانونی طور پر حل نہیں کیا گیا اور سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج جمہوریت کیلئے اور نظام کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ نظریہ ضرورت کا راستہ صرف اور صرف آئین اور قانون پر عملدرآمد سے روکا جاسکتا ہے جب بھی آئین کو بالائے طاق رکھ کر حکومت چلانے کی کوشش کی گئی۔ نتائج خراب ہوئے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ متنازع بنادی گئی۔ عمران خان کہہ رہےہیں کس نے کتنی دھاندلی کی یہ کمیشن نے طے کرنا تھا جو نہ کرپایا۔‘‘ قرارداد واپس لے لیں تب بھی پی ٹی آئی اسمبلی میں نہیں رہ سکتی یہ کون کہہ رہا ہے یہ مولانا فضل الرحمٰن کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازع ختم نہیں ہوگا۔ اس لئے میاں نواز شریف کو جو بھی کرنا ہے آئین اور قانون کے مطابق کریں یاد رکھیں اس سے آسمان نہیں گر پڑے گا۔ فیصلہ ووٹ سے نہیں کورٹ سے ہوگا۔پی ٹی آئی کیلئے یہ مشکل وقت ہے اس کی پارٹی اندر سے غیر مستحکم ہورہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر خلفشار سے زیادہ خطرہ ہے انہیں اس پر توجہ کرنی چاہئے۔میاں نواز شریف کو قومی نظریاتی اتحاد کیلئے دن رات کوشش کرنی چاہئے فکری اتحاد ہی پاکستان کی بقا اور طاقت کا ضامن ہے ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے جیسا پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت تھا اور یہ سیاسی لیڈروں کے ایک دوسرے پر اعتبار کرنے سے ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کوئی بھی معتبر نہیں رہے گا۔