• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصاف میں تاخیر انصاف سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا وہ جلد تباہی کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول کہ کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔ یہ قول اسلامی معاشرے میں انصاف کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ روز محشر جب کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ رب ذوالجلال کے سامنے لب کشائی کرے مگر ایسے میں عادل حاکم کو رب کریم کے سائے میں پناہ ملے گی۔دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،ہمیشہ ان معاشروں نے ترقی کی ہے جہاں پر انصاف کا مضبوط نظام موجود ہے۔حتی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اس توقع پر قائم رہا کہ جب تک معاشرے میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے عظیم سلطنت برطانیہ کا شیرازہ نہیں بکھر سکتا۔دنیا میں انصاف کے باقاعدہ نظام کا آغاز حضرت عمر ؓ کے دور میں کیا گیا۔آپ کے دور میں جہاں اسلامی ریاست تمام براعظموں تک پھیلی وہیں آپ نے ہر علاقے کے لئے ایک موثر عدالتی نظام متعارف کرایا۔آج بھی دنیا اس عظیم حکمران کے دور کو یاد کرتی ہے جس نے انصاف کی اولین مثال قائم کرتے ہوئے اپنے ہی گورنر کے بیٹے کو کوڑوں کی سزا دلوائی۔یہ انصاف ہی ہوتا ہے جو عوام کا ریاست پر اعتماد بحال رکھتا ہے۔مگر جب معاشروں میں انصاف کو نظر انداز کرنا شروع کردیا جائے تو پھرریاست کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔آج شاید وطن عزیز کی بھی یہی صورتحال معلوم ہوتی ہے۔
قارئین کو آج ایک ایسا واقعہ سنانے جارہا ہوں ۔جس نے حقیقتاََ ریاست کے ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔حقائق سامنے آنے کے بعد واقعی ایسامعلوم ہوتا ہے کہ شاید پاکستان میں انصاف اپنی موت آپ مرچکا ہے۔پہلے سنا کرتے تھے کہ عوام انصاف کی تگ و دو میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں مگر آج مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انصاف خود سسکیاں لے لے کر مررہا ہے۔حالات کچھ ایسے ہیں کہ نہ ہمت التجاہے اور نہ ضبط کا حوصلہ۔واقعہ سنانے سے قبل محسن نقوی کا شعر یاد آگیا۔۔۔
سنا ہے زلزلے آتے ہیں عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سنا ںپہ بولتا ہے
مظہر حسین پوٹھوہار کے علاقے سہالہ کا رہائشی تھا۔ذریعہ معاش کوئی خاص نہیں تھا مگر زندگی کی جدوجہد میں لکڑیاں بیچ کر گزارا کرتا تھا۔1997کی ایک شام وفاقی دارالحکومت کے قریبی علاقے سہالہ میں قتل ہوا۔پولیس نے روایتی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظہر کو تعزیزات پاکستا ن کی دفعہ 302کے تحت گرفتار کرلیا۔مظہر کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کردیا گیا۔معاملے کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا۔غربت کی چکی میں پسنے والے مظہر کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تھے وکیل کرناتو دور کی بات۔جب کہ مجسٹریٹ صاحب کے پاس بھی شاید اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ کیس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔جج صاحب نے کیس ایف آئی آر کے مندرجات اور تفتیشی کی ضمنیوں پر اکتفا کیا اور مظہر حسین کو سزائے موت سنادی گئی۔علاقہ مجسٹریٹ کے قلم سے جاری ہونے والا حکم سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں بھی تبدیل نہ ہوسکا۔مقدمہ کئی سال تک سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی چلتا رہا۔اس دوران کیس کی پیروی کرنے والا مظہر کا والد اور بوڑھا چچابھی زندگی کی بازی ہار گئے۔ضعیف ماں آنسو بہا بہا کر بینائی سے محروم ہوگئی۔چھوٹے بہن بھائیوں کے بچے بڑے ہوگئے۔اپنی اولاد کی شادیاں ہوگئیں۔پھر ایک دن سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک معزز جج صاحب نے دلچسپی لیتے ہوئے مقدمے کی سماعت کی۔3روز قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19سال بعد مظہر کو بے گنا ہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔جج صاحب کے رہائی کے وقت ریمارکس بھی عدالتی کارروائی کا حصہ ہیں کہ فلموں میں تو سنتے تھے کہ میرے 12سال مجھے واپس کردیں ،مظہر کے19سال ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہوگا؟بہرحال سپریم کور ٹ کا حکم نامہ جب متعلقہ جیل انتظامیہ کو موصول ہوا تو وہ منظر سامنے آیا ،جسے دیکھ کر زمین پھٹنے اور آسمان گرنے پر مجبور ہوجائے۔رہائی کا حکم سامنے آنے کے بعد مظہر کے گھر خوشیوں کے شادیانے بجنے کے بجائے کہرام برپا ہوگیا۔مظہر دو سال قبل ہی جان فانی سے کوچ کرچکا تھا۔انصاف کی امید سے مایوس مظہر کو فوت ہوئے دو سال سے بھی زائد کا عرصہ بیت چکا تھا۔مظہر نے شاید ملک میں انصاف کے نظام پر اعتماد کرتے ہوئے زندگی سے آزادی کو ترجیح دی ۔شاید اس سے تکلیف دہ لمحہ دنیا کی تاریخ میں نہیں آیا ہوگا۔جب انیس سال تک کیس چلتا رہا اور عدالت نے ملزم کے مرنے کے دو سال بعد قبر میں سوئے ہوئے مظہر حسین کو ڈیسک بجا کر انصاف کی نوید سنائی۔واہ رے انصاف۔۔۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
اسی معاملے پر آج سماجی رابطے کی سائٹ پر کسی نے خوب لکھا ہے کہ" مجھے سمجھ نہیں آتا کہ عدلیہ کے اس فیصلے کا کتبہ بنا کر مظہر کی قبرپر لگادیا جائے ،یا پھر اس کتبے کو ہر عدالت کی پیشانی پر چسپاں کیا جائےــ"۔شاید اسی پر ہی کسی نے کہا تھا کہ
"اس دور میں پچھتاؤ گے زنجیر ہلا کر"
مظہر کا کیس آج ملک بھر کے اداروں اور اعلی عدلیہ کے لئے ایک مثال ہے۔ پتہ نہیں اس ملک میں کتنے مظہر یوں ہی انصاف کی آس میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور عدالت کا فیصلہ انہیں قبر میں پہنچایا جاتا ہے۔ یہ تو صرف ایک معاملہ ہے جس میں سپریم کورٹ کے جج صاحب کی ذاتی دلچسپی لینے کی وجہ سے قوم کے سامنے اذیت ناک حقائق سے پردہ چاک ہوا۔ مگر پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں روز ایسے درجنوں نہیں ہزاروں کیس سامنے آتے ہیں۔سپریم کورٹ متعدد مقدمات میں ماتحت عدالتوں کی سرزنش کرتے ہوئے کئی فیصلے بھی سنا چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا تیزی سے ٹرائل کا فیصلہ سب کے سامنے ہے،مگر اس کے باوجود انصاف کے نظام میں خامیوں سے انکار ممکن نہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مظہر کی موت سے سبق حاصل کریں۔بے گنا ہ مظہر کی انصاف کے ہاتھوں موت 20کروڑ پاکستانیوں کے ضمیر پر بوجھ ہے۔جس کا قرض شاید کوئی بھی نہ چکا سکے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اب کوئی اور مظہر ہمارے انصاف کے ہاتھوں قتل نہ ہو تو پھر خدارا عدالتی نظام میں اصلاحات لے کر آئیں۔فیصلو ں میں تاخیر کرنے والے افراد کو سپریم کورٹ آف پاکستان کڑی سے کڑی سزائیں دے۔ آج وہ وقت آچکا ہے جب ہمیں انصاف چاہئے نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ ملک میں مضبوط ،موثر اور انصاف پر مبنی عدالتیں ہی بہتر پاکستان کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔ وگرنہ یوں ہی روز انصاف کی موت ہوتی رہے گی اور وہ وقت دور نہیں جب ریاست خود موت کے دہانے پر کھڑی ہو۔


.
تازہ ترین