ہم اپنی آزادی کے 68سال مکمل کر چکے اور اب ربِ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں کہ ہمیں اپنی آزادی کی حفاظت اور اپنے وطن کو امن اور انصاف کا گہوارہ بنانے کی توفیق دیتا رہے۔ مجھے ساعت کا وہ لمحہ اچھی طرح یاد ہے جب 15؍اگست کی رات ریڈیو پر قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا، تو میرا وجودخوشی سے کھل اُٹھا۔ میری اُس وقت عمر پندرہ سال سے کچھ ہی زیادہ تھی اور آس پاس کے علاقوں سے فرقہ وارانہ فسادات کی ہولناک خبریں آ رہی تھیں۔ خوف کے ماحول میں دو روز بعد ہم نمازِ عید ادا کرنے شہر سے چند میل دور عیدگاہ گئے اور جب واپس آئے، تو ریڈیو پر ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان ہو رہا تھا جس میں مسلم اکثریت کے اضلاع فیروزپور اور گورداسپور بھارت کو دے دیے گئے تھے۔ اِس کھلی ناانصافی اور پرلے درجے کی سازش پر مسلم آبادی اندیشہ ہائے دوردراز میں ڈوب گئی۔ مشرقی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں آگ اور خون کا دریا طغیانی پر تھا، چنانچہ بڑوں کے درمیان طے پایا کہ انتقالِ آبادی ناگزیر ہو گیا ہے۔ سرسے میں ہمارے گھروں پر مشتمل کیمپ قائم کر دیا گیا۔ اب مجھ پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔پاکستان جلد سے جلد پہنچ جانے کی آرزو مضطرب کئے دے رہی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں میں کتنے ہی حسین خواب سجا رکھے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کی تصانیف میں اپنے اسلاف کی عظمت و شوکت کی جو تصویر دیکھی تھی، اُس کے مطابق پاکستان کی تعمیر کے منصوبے میرے چھوٹے سے دماغ میں بسے ہوئے تھے۔
ہمارا خاندان نومبر 1947ء میں پاکستان آ گیا اور ہم نے اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی مقدور کی حد تک پاکستان کی فکری تشکیل میں حصہ لیا اور ہمارے وطنِ عزیز نے ہمیں وہ کچھ دیا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پاکستان اگر نہ بنتا تو بھارت میں ہماری حیثیت زیادہ سے زیادہ چپراسی یابھنگی کی ہوتی۔پاکستان کی تخلیق سے پہلے ہندوؤں میں ایسی انتہا پسند دہشت گرد اور عسکری تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں جو مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا اور اُن سے ایک ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینا چاہتی تھیں۔ 1947ء میں مسلمانوں کی ایک عظیم ریاست وجود میں آئی جس نے ہندوؤں کی یلغار اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے مضبوط بند باندھ دیا اور مسلم ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کیا۔ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے قوت کا ایک منبع ثابت ہوئی۔ پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اقتصادی اور عسکری اعتبار سے ایک اہم علاقائی طاقت کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ جن ممالک میں گئے ہیں، اپنی صلاحیتوں کا نقش قائم کر دیتے ہیں۔ آزادی کی نعمت سے ہم اوجِ ثریا تک پہنچ جانے کے خواب دیکھ سکتے اور اُنہیں عملی جامہ پہنانے کی استعداد رکھتے ہیں۔
آزادی کی برکات و ثمرات کے مقابلے میں ہمارے بیشتر حکمران سہل پسند اور کم ہمت ثابت ہوئے۔ گزشتہ ایک عشرہ ایسی افراتفری میں گزرا کہ اعلیٰ قدریں، اعلیٰ تصورات اور اعلیٰ سماجی معیارات بری طرح متاثر ہوئے۔ بدقسمتی سے سیاست جو حکمرانی کا اعلیٰ ترین فن تصور ہوتا ہے ، وہ محض کاروبار بن کے رہ گئی، کھیت کے رکھوالے ہی اُسے تاراج کرتے رہے۔ سرکاری محکمے، ریاست کے اثاثے اور حکومت کے اہم کارندے فروخت ہونے لگے اور کرپشن کی سڑاند ہر سو پھیلتی گئی۔ یہ تاثر قائم ہوا کہ مجرم کو سزا ہو سکتی ہے نہ دہشت گرد گرفت میں آ سکتا ہے ، نہ اداروں میں کڑا احتساب ممکن ہے۔ اِسی تاثر نے مجرموں کی حوصلہ افزائی کی اور مافیاؤں نے پوری قوم کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور یہ آس ٹوٹ گئی کہ معاشرے میں کبھی صحت مند تبدیلی بھی آ سکتی ہے، تاہم گزشتہ دو برسوں میں اُمیدوں کے چراغ جل اُٹھے ہیں اور یقین و اعتماد کی قندیلیں روشن ہوتی جا رہی ہیں۔ تازہ دم فوجی سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے مذاکرات کو مناسب وقت دینے کے بعد سیاسی قیادتوں کے مشورے سے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا اور یہ تاثر زائل کر دیا کہ دہشت گردی ایک ناقابلِ تسخیر قوت ہے۔ فضائیہ کے تعاون سے آپریشن میں اُن کے قلعے، بارودخانے، کمیونیکیشن نیٹ ورک مسمار ہوتے گئے اور دہشت گردوں کی افرادی طاقت توڑ دی گئی ہے۔ کراچی میں بھی سیاسی قائدین کی مشاورت سے کلین اپ آپریشن ایک سال سے جاری ہے جس میں جرائم پیشہ عناصر گرفت میں آ رہے ہیں اور بڑے بڑے مگرمچھ جال میں پھنس رہے ہیں۔ کرپٹ سرکاری ملازمین اور لینڈ مافیا کے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے اور یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اب مقتدر افراد بھی قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ اِس ایقان افروز احساس سے معاشرے کے اندر ایک نیا جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اِس ایقان اور اعتماد میں لاہور میں ہونے والے ایک حیران کن تجربے نے مزید اضافہ کیا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز صاحبہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر ہوٹلوں، ریستورانوں اور باورچی خانوں پر چھاپے مارنے اور صفائی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں پر بھاری جرمانے شروع کئے ہیں۔ اِس کارروائی میں فائیو اسٹار ہوٹل بھی بے نقاب ہو گئے ہیں اور انتہائی مقبول ریستوران بھی۔ یہ خاتون بڑی سے بڑی شخصیت کو خاطر میں لانے کے بجائے صحت عامہ کے اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا رہی ہیں اور اہلِ وطن میں یہ ایقان جاگزیں کرتی جا رہی ہیں کہ حکومت مجرموں پر ہاتھ ڈالنے میں پوری طرح پُرعزم ہے۔
مجھے گزشتہ دنوں وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کی بریفنگ میں شمولیت کا موقع ملا جس میں اُنہوں نے اپنے محکمے کی دو سالہ کارکردگی کاجائزہ پیش کیا۔ وہ میرے لئے ایک روح پرور تجربہ تھا۔ پہلی بار میرے اندر یہ اعتماد پیدا ہوا کہ اب ہم پستی سے بلندی کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ دو سال کے دوران ہمارا قومی منظرنامہ ایک عظیم تغیر سے گزر رہا ہے۔ ہمارے دلوں میں اُمید کے غنچے چٹخنے لگے ہیں کہ سیاسی بصیرت، شبانہ روز محنت، اعلیٰ ٹیم کے انتخاب اور کڑے احتساب سے بہت بڑی تبدیلی وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ جب خواجہ صاحب نے یہ مژدہ سنایا کہ ہم ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کی بدولت پشاور سے کوئٹہ صرف نو گھنٹوں میں پہنچا جا سکے گا، تو میرا پورا وجود خوشی اور اعتماد سے جھوم اُٹھا کہ ہماری قومی زندگی کا سفر تیزتر اور محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ اتوار پائنا اور نجی یونیورسٹی نے ’مسئلہ کشمیر ۔ علاقائی امن و سلامتی کے لئے چیلنج‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں کشمیری قیادت، گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن اور پاکستان کی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ چار گھنٹوں پر مبنی اِس مذاکرے میں سبھی مقررین نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ تنازع کشمیر کے حل ہونے کا وقت قریب آن پہنچا ہے، کیونکہ تاریخ میں ہمیشہ اصولوں کی جیت ہوتی آئی ہے۔ حقِ خودارادیت کا اصول مسلمہ ہے اور یہ حق سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کو دیا ہے۔ کلدیپ نیر نے اپنے ایک کالم میں برملا اعتراف کیا ہے کہ وادیٔ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ سیمینار میں وزیراعظم نوازشریف کی اُن کاوشوں کو سراہا گیا جن میں اُنہوں نے 2013ء اور 2014ء میں جنرل اسمبلی میں کشمیر کاز بڑی جرأت سے پیش کیا اور یوفا سربراہ کانفرنس میں وزیراعظم مودی سے تمام اہم نکات پر بات چیت کی۔ بدقسمتی سے بھارتی قیادت معاہدوں کا پاس کرنے کے بجائے علاقائی امن تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور کشمیر کا جنت نظیر خطہ جہنم زار میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیمینار میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جارحانہ سفارت کاری اپنائے اور عالمی معیار کا انٹرنیشنل کشمیر پبلسٹی سیل قائم کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں نے علم اور جذبے کی طاقت سے جو نئی تحریک شروع کی ہے، اُسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کرنا اور اسے انسانی بنیادوں پر عالمی اداروں میں پوری قوت کے ساتھ اُٹھانا ہو گا۔میں جب وہاں سے اُٹھا ، تو اپنی رگوں میں اُمید کا رس دوڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
اہلِ وطن کو یومِ آزادی اور اُمیدکے پھول کانٹوں سمیت مبارک!