شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں زبردست ہزیمت کے بعد منطقی طورپر توقع کی جارہی تھی کہ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں بوکھلاہٹ کے عالم میں عوامی شخصیات، حساس اداروں، اہم قومی تنصیبات اور بے گناہ شہریوں کو اپنی بہیمیت کا نشانہ بنانے کے لئے ملک کے اندرونی علاقوں کا رخ کریں گی جہاں فرقہ پرست تخریبی گروہ پہلے سے ان کی مدد کے لئے موجود ہیں۔ مگر قومی ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح چوکس کر دیا گیا جس کی وجہ سے دہشت گردی کی درجنوں کوششیں بر وقت انٹیلی جنس معلومات ملنے پر ناکام بنا دی گئیں۔ کئی دہشت گرد سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے یا گرفتار کر لئے گئے۔ اس طرح قومی سطح پر امن و امان کا ماحول اور تحفظ کا احساس پیدا ہونےلگا جس سے شہریوں نے سکون کا سانس لیا اور زندگی معمول پر آتی نظر آنے لگی لیکن اتوار کو دہشت گردی کے ایک انتہائی المناک واقعے میں پنجاب کے وزیر داخلہ اور صوبے میں قومی ایکشن پلان کے نگران کرنل (ریٹائرڈ) شجاع خانزادہ اور ان کی سیکورٹی پر مامور ڈی ایس پی شوکت علی شاہ سمیت خود کش حملے میں 20افراد کی شہادت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مکمل صفایا کرنے میں ابھی مزید وقت لگے گا اور قوم کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہمہ وقت چوکس رہنا ہو گا۔ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ وطن عزیز کے ایک دلیر سپاہی تھے جنہوں نے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران صوبے میں دہشت گردی روکنے کے لئے قابل قدر اقدامات کئے۔ انہیں ایک ہفتے سے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں اس کے باوجود انہوں نے اپنی عوامی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اتوار کو وہ اٹک میں اپنے ڈیرے پر علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کر رہے تھےکہ ایک خود کش بمبار کسی طرح ان کے قریب پہنچا اور دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کالعدم لشکر جھنگوی اور طالبان کی جماعت الاحرار گروپ نے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔یہ سانحہ لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق اور اس کے بیٹوں کی موت کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔ صدر ممنون حسین وزیر اعظم نواز شریف آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت ملک کے تمام سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے اس واقعے کی پرزور مذمت کی ہے ۔بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ایک ایک دن جبکہ پنجاب میں تین دن کا سوگ منایاجا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پنجاب میں اس سال دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے، ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں دہشت گردوں کے مجموعی طورپر 57گروپوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکورٹی کے انتظامات بھی اتنے ہی بڑے پیمانے پر کئے جانے چاہئیں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں اب تک چار ہزار کے قریب دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ چار سو کے قریب افسر اور جوان شہید ہوئے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ملک میں چار ہزار آپریشن کئے گئے اور دہشت گردوں سے اتنا اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا جس کی مدد سے وہ بیس اکیس سال تک لڑ سکتے تھے شمالی وزیرستان کا 90فیصد علاقہ دہشت گردوں کے قبضے سے خالی کرا لیا گیا ہے اتوار کو یہاں فورسز کی بمباری سے مزید40دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ گزشتہ ماہ جنگجوئوں کے حملوں اور سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کے 141واقعات نوٹ کئے گئے جن میں 149دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ان تمام کامیابیوں کے باوجود دہشت گردی کی وارداتیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ گویا دہشت گردوں کی باقیات میں اب بھی جوابی وار کی استعداد اور وسائل موجود ہیں اور وہ پے در پے شکستوں کے بعد مایوسی کے عالم میں کہیں بھی اور کسی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس لئے ان کا ہر جگہ پیچھا کیا جانا چاہیئے اور سکیورٹی کے انتظامات سے ذرہ برابر غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ کرنل خانزادہ جیسی شخصیت کی شہادت کے بعد اس طرح کے اقدامات اور زیادہ ضروری ہو گئے ہیں اس حوالے سے وزیراعظم اور آرمی چیف کا یہ عزم لائق تحسین اور حوصلہ افرا ہے کہ دہشت گردوں کا آخری کمین گاہ تک تعاقب کیا جائے گا۔
ہری پور کا ضمنی انتخاب
خیبر پختون خوا کے علاقے ہری پور میں اتوار کو ہونے والے قومی اسمبلی کے حلقہ 19 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان بھرپور مقابلے کے بعد غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن)کے امیدوار بابر نواز نے واضح برتری حاصل کرلی ہے، اس طرح اس حلقے کے ووٹروں کی اکثریت نے وفاق میں حکمراں جماعت کی پالیسیوں اور اقدامات پر اپنے اعتماد کا واضح اظہار کیا ہے۔ اس نشست پر مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کو تحریک انصاف کی جانب سے چیلنج کیا گیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے یہاں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک کسی تعطل کے بغیر پوری طرح پرامن ماحول میں جاری رہی اور پانچ سو سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں سے209کو حساس اور42 کو حساس ترین قرار دیئے جانے کے باوجود کہیں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کی وجہ یقینی طور پر سیکورٹی کے سخت انتظامات اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی مکمل تیاری تھی۔اس الیکشن کی سب سے قابل ذکر خصوصیت تیس پولنگ اسٹیشنوں پر چھتیس ہزار رجسٹرڈ ووٹروں کی بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے شناخت کا اہتمام تھا تاکہ اس تجربے کی روشنی میں اس نظام سے آئندہ تمام انتخابات میں کام لے کر بوگس ووٹنگ کا مکمل سدباب کیا جاسکے۔ لہٰذا امید کی جانی چاہئے کہ انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمینٹ کی سطح پر جس قانون سازی کی تیاری ہو رہی ہے، بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے ووٹر کی شناخت کو بھی اس کا لازمی حصہ بنایا جائے گا۔ ضمنی انتخابات درحقیقت منتخب حکومتوں اور حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں سب کو اس بات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ لوگ ان کی کارکردگی، پالیسیوں اور اقدامات کو کسی طرح دیکھ رہے ہیں۔ تیز رفتار اور آزاد ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے سبب اب ناخواندہ عوام بھی ان حوالوں سے ماضی کی نسبت کہیں زیادہ باشعور ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ضمنی انتخابات حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو ان کے نتائج کی روشنی میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لے کر غلطیوں کی اصلاح جبکہ عوام کی حمایت کا سبب بننے والی پالیسیوں کومزید بہتر بنانے کو کوشش کرنی چاہئے۔
ریلوے کی قابل تقلید کارکردگی
پاکستان ریلوے کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2014-15 میں ریلوے کی آمدن 32ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ ہدف 28ارب روپے مقرر کیاگیا تھا اس کامیابی کو ہر صورت انتہائی خوش آئند قرار دیاجاسکتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں ریلوے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تھی۔ ریلوے شیڈول درہم برہم ہو گیا تھااور ریل گاڑیاں کئی گئی گھنٹے لیٹ ہو رہی تھیں۔ انجنوںکا حال یہ تھا کہ چلتی ٹرین کا انجن فیل ہو جاتااورٹرین کسی سٹیشن پر کھڑی ہو جاتی جس کی وجہ سےمسافروں کو شدیددقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان حالات میں ریلوے کی ساکھ شدیدطور پر متاثر ہوئی تھی تاہم موجودہ حکومت نے ریلوے کی بحالی پر توجہ دی ۔سالانہ کارکردگی رپورٹ سے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں خصوصاً مال گاڑیوں کی تعداد جو 182 تھی اس میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے یہ تعداد بڑھ کر 2920 ہوگئی ہے۔ اس سے سامان کی نقل و حمل میں سہولیں مہیا ہوئی ہیں۔ ریلوے آمدن میں گشتہ سال کی نسبت 10ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ ریلوے نے 22نئے انجن خریدے ہیں جن کی ترسیل اکتوبر 2016 سے شروع ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق فریٹ میں اضافہ پی ایس او، پوسٹل، پاک آرمی، سوئی گیس اور دیگر محکموں سے وصولی بہتر ہونے سے آمدن میں اضافہ ہو ا ہے۔ ریلوے کے شیڈول اور انتظام کو بہتر بنانے کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں میں مسافروں کی تعداد میں ایک کروڑ 20لاکھ کا اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 26فیصد زائد ہے جبکہ پنشن ، تنخواہوں میںاضافہ اور دیگر مدوں میں ریلوے نے 5ارب روپے کی ادائیگیاں بھی کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریلوے میں بہتر منصوبہ بندی کرکے خسارہ میں چلنے والے ایک ادارہ کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے تو پی آئی اے، سٹیل ملز اور بجلی کمپنیوں کو کیوں منافع بخش نہیں بنایا جاسکتا؟ نج کاری کے پراسیس سے انکار نہیں لیکن دوسرے ادارے کو بھی اسی طرح جامع منصوبہ بندی کرکے منافع میں لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001