• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادداشت سے آج تک اس نوجوان ثناء اللہ کی حالت محو نہیں ہوتی جو ضلع ساہیوال میں واقع میرے آبائی گائوں کا رہائشی تھا۔ گائوں کے افراد اس کو انتہائی قابل رحم حالت میں کبھی کسی کھیت میں پڑا اٹھا کر لاتے تو کبھی وہ کسی کوڑے کے ڈھیر پر پڑا سسکیاں لیتا ملتا۔ اسکے اندر کی ناقابل برداشت اذیت ،کرب بن کر اسکے چہرے سے جھلک رہی ہوتی،اسکے ہاتھ اور پائوں مڑجاتے،بدن پرکپکپی طاری ہوجاتی اور وہ خود کو کاٹ اور نوچ رہا ہوتا۔ اس کی یہ حالت اس وقت تک قائم رہتی جب تک گائوں کے بزرگ سڑک پار دوسرے دیہات سے اس کیلئے ایک چھوٹی سی پڑیا کا بندو بست نہ کر لیتے،محلے کے دیگر لڑکوں کے ساتھ میں بھی یہ انہونی دیکھتا کہ جیسے ہی وہ پڑیا اس کے سامنے آتی اس کی بے نور آنکھوں میں چمک ابھر آتی،وہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے سگریٹ کی ڈبیا میں موجود چمکیلا کاغذ الگ کرتا،پڑیا میں موجود سفید سفوف اس کاغذ پر ڈالتا، پپڑی جمے ہونٹوں میں سگریٹ لیتا جسے دیا سلائی سے جلانے کے دوران کبھی سگریٹ منہ سے گرجاتی اور کبھی دیا سلائی سگریٹ کی بجائے اس کی سوکھی انگلیوں کو جلاتے ہوئے بجھ جاتی،تیسری چوتھی کوشش میں آخرکار وہ سگریٹ کو سلگا لیتا اور جلتی دیا سلائی کو کاغذ کے نیچے پھیرتا،اسی دوران وہ سگریٹ کے کش سے کاغذ کے اوپر پڑے سفید سفوف( ہیروئن) کو اپنی رگوں میں اتارتا جاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے سگریٹ کے ختم ہونے سے پہلے یہ سفید زہر چند گھنٹوں کیلئے ایسے تریاق کا کام کرتا کہ اسے دیکھ کر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ چند لمحے قبل یہ نوجوان موت و زندگی کی کشمکش سے دوچار تھا۔ امریکی جریدے نے گزشتہ دنوں ایسے ہی افراد کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے استعمال سے روزانہ 700 لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دہشت گردی میں روزانہ اوسطا39 افراد مارے جاتے ہیں۔ ان خوفناک اعدادو شمار کی تصدیق تو متعلقہ ادارے ہی کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطرناک محل وقوع کا حامل ہے کہ جو اس وقت ایران کے ساتھ دوسرا ملک ہے جو افغانستان میں پیدا اور تیار ہونے والی منشیات کی اسمگلنگ کیلئے بطور راہداری استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ خطیر زرمبادلہ کمانے کی اتنی بڑی صنعت بن چکی ہے کہ اب اس مکروہ دھندے سےحاصل کیا جانے والا پیسہ دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے درمیان پیدا ہونے والے اس گٹھ جوڑ کو نارکو ٹیررازم کی اصطلاح کا نام دیا گیا ہے۔ ملکی سلامتی کو لاحق اس خطرے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے رواں ماہ کے اوائل میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈکوارٹرزکا دورہ کیا اور واشگاف الفاظ میں یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور منشیات کا پیسہ دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ منشیات کی پیداوار اور فروخت میں ملوث عناصر قومی سلامتی کیلئے دہشت گردوں کی طرح ہی خطرناک ہیں۔ قومی سلامتی کے اداروں کو درپیش اس اہم چیلنج کو سمجھنے کیلئے کچھ اعدادو شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال12 ہزار630کلو گرام ہیروئن پکڑی گئی جبکہ سال 2012ءمیں یہ مقدار 1 ہزار 9 سو کلو گرام تک محدود تھی۔ عالمی سطح پر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر معمولی کارکردگی کا اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں منشیات کی جتنی اسمگلنگ کو ناکام بنایا گیا اس میں سب سے زیادہ 16 اعشاریہ 6 فیصد تنہا پاکستان نے ممکن بنایا ہے۔ منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کی رواں سال جون میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات کا45 فیصد پاکستان کے راستے اسمگل ہوتا ہے جس سے وطن عزیز میں نشے کے عادی 67 لاکھ افراد کی رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں استعمال ہونیوالی ہیروئن کا 80 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی منشیات کی یہ صنعت اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ منشیات فروشی سے جڑے مافیا اور دہشت گردسالانہ 70ارب ڈالر کماتے ہیں۔ اسی کالی کمائی میں سے2 ارب ڈالر کا حصہ تحریک طالبان پاکستان کو اور ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالرمال برداری کرنے والوں کو ملتا ہے۔ سال2009ءمیں افغان طالبان سرحدوں کے ذریعے کی جانیوالی منشیات کی اسمگلنگ پر صرف آنکھیں بند کر نےکیلئے 10 سے 30 کروڑ ڈالر تک بھتہ وصول کرتے تھے جس میں یقیناََ اب بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ طالبان کے نزدیک دہشت گردی کیلئے درکار مالی وسائل کے حصول کیلئے منشیات سب سے اہم ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت2 لاکھ 24 ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کی کاشت کی جارہی ہے جو اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ سال 6 ہزار 4 سو ٹن پوست کی پیدوار ریکارڈ کی گئی جو سال 2013 کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔ اسی پوست سے ہیروئن اور مارفین بنائی جاتی ہے۔گزشتہ سال پوست کی کل پیداوار میں سے62 فیصد کی ہیروئن بنائی گئی۔اب ذکر کرتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ کن راستوں سے کی جارہی ہے،افغانستان سے لاطینی امریکہ کے علاوہ دنیا بھر میں پہنچنے والی منشیات کی اسمگلنگ پہلے زیادہ تر ایک راستے سے کی جاتی تھی جسے بالکن یا مغربی روٹ کہا جاتا ہے۔ اس راستے سے منشیات ایران اور ترکی کو اسمگل کی جاتی جہاں سے روس، وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک پہنچائی جاتی جبکہ اب مغربی روٹ کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کیلئے پاکستان اور ایران کے راستے منشیات ایشیا ،افریقہ ،مغربی اور وسطی یورپ کے ممالک کو اسمگل کی جارہی ہیں۔ اسی راستے سے منشیات بھارت، خلیجی ممالک ،برطانیہ ،بلجئیم، ہالینڈ،اٹلی اور اسپین تک بھی پہنچائی جارہی ہیں۔ افغانستان سے طورخم،چمن اور غلام خان بارڈرز کے ذریعے جہاں منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی ہے وہیں بے تحاشا دیگرغیر معروف راستوں کے ذریعے اسے بلوچستان بھی پہنچایا جاتا ہے جہاں امام بھیل جیسے کئی کردار اسے دیگر ممالک تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس کا نام امریکی صدر باراک اوباما نے ممکنہ بڑے منشیات اسمگلروں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایسے کرداروں کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سال 2002 کے الیکشن میں سابق صدر پرویز مشرف نے مبینہ طور پر ایک معروٖف خاتون امیدوار کو کامیاب کرانے کیلئے اسی امام بھیل کی حمایت حاصل کی تھی جبکہ بدلے میں اس کانام مبینہ طیارہ ہائی جیکنگ مقدمے سے خارج کروا دیا تھا۔ بعد میں سال 2008ءکے انتخابات میں اسی امام بھیل کا بیٹا قومی اسمبلی کا رکن بھی منتخب ہواتھا۔ بات کسی اور طرف نکل گئی اوپر بیان کردہ تلخ حقائق کی روشنی میں ضروری ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کیلئے پاکستان ،افغانستان اور ایران کے درمیان بھرپور تعاون کو ممکن بنایا جائے۔یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ دنیا بھر میں 80 فیصد منشیات چونکہ اسی خطے سے اسمگل ہورہی ہے اس لئے اس پہلو کو مؤثر طور پر اجاگر کر کے اس کے تدارک کیلئے عالمی برادری سے مالی اور تکنیکی تعاون حاصل کیا جائے۔ بیان کردہ حقائق کی روشنی میں حکومت وقت قومی سلامتی کے اداروں کے اشتراک سے کوئی مربوط پالیسی تشکیل دے گی تو ثناء اللہ جیسے معصوم نوجوانوں اور شجاع خانزادہ جیسے بہادر افراد کو منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے گا۔
تازہ ترین