سرتاج عزیز صاحب کے مطابق 1996میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے میاں نواز شریف کو پارلیمانی انتخابات میں بڑی کامیابی پر مبارک باد کا خط ارسال کیا۔اس خط کا سفارتی آداب کے مطابق جواب ضروری اور اہم تھا اس لیے وزیراعظم نے ان کے مشورے پر بھارتی وزیراعظم کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ان کو پاکستان کے دورہ کی دعوت اور باہمی اختلافات کو ختم کرنے پر زور دیا۔سرتاج عزیز صاحب کے مطابق 1996کے انتخابات میں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا،اختلافات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا اور پرامن حالات کا قیام مسلم لیگ کے منشور میں شامل کیا گیا تھا اور چونکہ مسلم لیگ نے انتخابات میں کامیابی اسی منشوراور پروگرام کے تحت حاصل کی تھی اس لیے ان کے نزدیک یہ بہت مناسب اور اہم تھا کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بے یقینی اور کشیدگی کو ختم کرنے کےلیےعملی اقدامات بلاتاخیر شروع کیے جائیںانہوں نےیہ بھی کیا تھا کہ صورتحال کچھ ایسی تھی کہ بھارت میں تعنیات امریکی سفیر وائزنر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور چوہدری شجاعت حسین کے گھر پر ہونے والی یہ ملاقات میں یہ امر بھی زیر بحث رہا تھا کہ کیونکر اور کسطرح پاک بھارت تعلقات مذاکرات کے ذریعہ بہتر ہوں اور بے اعتمادی کی فضا بھی اس سے پہلے ختم ہو تاکہ مذاکرات میں پیش رفت مثبت انداز کے ساتھ اور وقت کے دھارے کےمطابق صیح سمت میں ہوسکے۔ ماضی کی اس ملاقات میں پاکستان امریکہ میں سابق سفیر محترمہ عابدہ حسین بھی موجود تھیں۔چونکہ معاملات بہتر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا اس لیے مسلم لیگ کے منشور میں اس کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔
اٹل بہاری واجپائی نے اس خط کا مثبت جواب دیا دعوت تسلیم کرلی گئی یقیناً اس دوران سفارتی اور سیاسی ذرائع بھی متحرک رہے ہوں گے یوں اٹل بہاری واجپائی کا دورہ پاک بھارت تعلقات میں بس ڈپلومیسی کو متعارف کروایا گیا۔فروری99میں تمام دنیا کی نظریں لاہور پر مرکوز تھیں وہاں جو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے ایک ایسا واقعہ جس کا کہیں ذکر نہیں کچھ یوں ہے کی امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد پولیس کے ہاتھوں مرتے مرتے بچ گئے(اس کی تفصیلات سے میں پوری طرح واقف ہوں پھر کسی موقع پر تحریر کروں گا) پولیس نے ان کو بند گلی میں ایک بند مکان کے اندر آنسو گیس کے ذریعے مارنے کا مکمل اہتمام کیا تھاشاہی قلعہ کے راستہ میں جو کچھ ہوا غیر مناسب تھامگر اس پر حکومتی ردعمل اس سے بھی زیادہ غیر مناسب اور وحشیانہ تھا۔خیر مذاکرات ہوئے اعلامیہ جاری ہوا سشما سوراج جوکہ اچھرہ لاہور آج بھی اس کا ذکر کرتی ہیں سرتاج عزیز کے مطابق اگر 99میں مارشل لا نہ لگتا تو پاک بھارت معاملات طے ہونے جا رہے تھے گویا جسونت سنگھ اور سرتاج عزیز کی غیراعلانیہ ملاقات کسی دوسرے ملک میں ہونی تھی۔عجیب دلچسپ صورتحال ہے کہ خورشید محمود قصوری بھی اسی طرح کی بات کرتے ہیں کہ معاملات طے ہوگئے تھے اور بس حتمی شکل ہی دینا باقی تھی خورشید قصوری کی اس حوالہ سے اگلے مہینہ شائع ہونے والی کتاب ہمیں بتائے گی کہ ان کے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ معاملات کیسے اور کس حد تک طے ہوگئےتھے۔
پاک بھارت معاملات میں یہ بات بھی بھارتی سیاستدان کرتےہیں کہ پاکستان کی فوج اور بھارتی بیوروکریسی ان کو کبھی معمول پر نہ آنے دے گی۔ پاکستان کے تینوں فوجی آمر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے کبھی کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ بیک ڈور ڈپلومیسی بھی ہوئی کارگل کے معاملہ پر امریکہ بھی درمیان میں آیا1971کی جنگ کے بارے میں مودی خود بنگلہ دیش جا کر لب کشائی کر چکے ہیں۔65کی جنگ کے بعدروس میں جاکر معاملات طے ہوئے۔ غرض گھی مکھن کی صورت میں اورمکھن دہی کی صورت میں ہی رہا۔
اوفامیں ہونےوالے مذاکرات کے بارے میں سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کے کہنے پر مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہ کیا گیا تھا،کیا خوب ہے ۔یہ انداز کہ وہ بات جو کہ مرکز نگاہ ہونی چاہیے تھی اس کا پوری کہانی میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ معاہدہ لاہور کے بارے جنرل مشرف کہتے ہیں کہ اسمیں کشمیر کا ذکر نہیں تھا اور انہوں نے اس بارے اصرار کرکے اسکو معاہدہ کا حصہ بنوایا تھا ۔ شملہ معاہدے کے وقت پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور تھی اور اس وقت بھارتی دبائو پر یہ تسلیم کرلیا گیا کہ کشمیر سمت دیگر معاملات دونوں فریق خود طے کریں گے۔اگر بھارت نے یہ معاملات باہمی اتفاق رائے سے ہی طے کرنا ہوتے تویہ مسائل پیدا ہی کیوں ہوتے ۔ اگر بھارت اپنے قول و فعل میں تضاد نہ رکھتا تو مسئلہ کشمیر شروع ہی نہ ہوتا۔ بنگلہ دیش بھی نہ بنتا، سیاچین پر بھی بھارتی فوج اسطرح قابض نہ ہوتی ۔سر کریک کا بھی مسئلہ نہ ہوتا،نہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کرتا نہ ہی بدامنی ہوتی ،بھارتی سوچ ہندو سامراجیت سے کسی بھی صورت کبھی بھی الگ نہیں ہوسکتی۔
بھارت تو امرتسر میں گولڈن ٹیمپل پر بھی چڑھائی کرچکاہے جرنیل سنگھ بھنڈرا والہ کو خود مسز اندرا گاندھی نے پروان چڑھایا اور خود ہی اس کو سیکڑوں سکھوں سمیت قتل کر دیا۔
اوفا میں طے کیا گیا ایجنڈا کہیں پاکستان کو کشمیری قیادت کے ساتھ ملاقات سے نہیں روکتا اور ان کے ساتھ ملاقات نہ کرنا کسی بھی طرح پاکستان کےلیے ممکن نہ ہے ۔یہ دوسری بار ہے کہ بھارت نے کشمیری قیادت کے ساتھ ملاقات کو بہانہ بنا کر مذکرات سے انکار کر دیا ۔ کشمیری قیادت ان دنوں جس طرح بھارت کے بارے اپنے خیالات کا عملی مظاہرہ کررہی ہےبھارت سےپوشیدہ نہیں ۔گھر گھرپاکستانی جھنڈالہرایا جانا،سڑکوں گلیوں بازاروں مظاہروں میں پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کشمیریوں کے دل کی آواز ہے اس کو ایک نہ ایک دن تو رنگ لانا ہی تھا۔ سرتاج عزیز غالباً پہلی بار بھارتی زمین پر بھارتی دہشت گردی کی پورے میڈیا کے ساتھ بات کرتے کیونکہ وہ اپنے ساتھ ثبوت بھی لے کر جا رہے تھے ۔ثبوت تو ثبوت ہوتے ہیں۔ ان کو منطر عام پر تو لانا ہی ہوگا ۔نئی دہلی میں نہیں تو اسلام آباد میں۔۔۔ لیکن یہ وقت ہے اعلیٰ سفارت کاری کا۔۔ اب جبکہ حکومت اور افواج پاکستان مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر کے اپنی منزل کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہیں توپاکستانی قوم کو حالات و واقعات کےبارے میں اعتماد میں لیا جانا ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔