داستان الف لیلیٰ میں سند باد جہازی ترس کھاکر ایک لاغر بوڑھے کواپنے کاندھے پر سوار کرالیتا ہے ۔ وہ بوڑھا اپنے پیروں اور پنجوں سے سند باد کو ایسے جکڑ لیتا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اپنی لاکھ کوشش کے باوجود اس پیر تسمہ پا سے نجات حاصل نہیں کرپاتا اور قریب المرگ ہوجاتا ہے ۔ پھر کسی نہ کسی طرح سے اس بوڑھے کو شراب پلا کر اپنی جان چھڑا کر بھاگتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ تو خوش قسمت ہے جو بچ کر نکل آیا ‘‘ پاکستانی قوم کے سر پر وقتاً فوقتاً کئی پیر تسمہ پا سوار ہوکر اسے ادھ موا کرچکے ہیں ۔ جاگیرداری نظام افسر شاہی ، تھانہ کلچر، نااہل اور ناکام سیاسی رہنما، کرپٹ نظام حکومت ، دہشت گردی ،تخریب کاری ، اسمگلنگ اور سماجی ناانصافی عوام کے سروں پر سوار ہیں ۔ انڈیا نے آزادی کے بعد562ریاستیں اور جاگیرداری نظام ختم کرکے منصفانہ انتخابات اور سماجی انصاف قائم کیا ۔ چین ثقافتی، سماجی، زرعی اور صنعتی انقلاب کے ذریعے عروج پر پہنچ گیا ۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور فوجی حکمرانوں کی سیاسی بیساکھی بنی رہی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس پر پاکستان کو دولخت کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے ، اپنے ہر دور اقتدار میں بدعنوانیوں کے نئے ریکارڈ قائم کرتی رہی ۔35سالہ فوجی حکومت بھی عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکی ۔ کثیر التعداد اسلامی جماعتیں ، مبلغ مقرر ، مفکر عوام کو صراط مستقیم پر مائل نہیں کرسکے اور اسلامی ملک میں سیکولرازم فروغ پاتا رہا ہے ۔ چھوٹی سیاسی جماعتیں ملکی سطح پر کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ سرکاری افسران کی اکثریت حکومتی اداروں میں عوام دشمن طرز عمل ، کرپشن ناقص کارکردگی اور زوال کے ذمہ دار ہیں ۔ ہمارے سیاسی قائدین کی اکثریت محدود ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مختلف النوع کی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہے ۔
ایک کامیاب سیاستدان، بینکار، وکیل ، ڈاکٹر وانجینئر کو دن میں بارہ گھنٹے تک اپنے فرائض کی انجام دہی کرنا پڑتی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں اور افسران کی استعداد کار چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہے ، اس لیے لاکھوں کیسز کی فائلیں اور مقدمات طویل عرصے تک زیر التوا رہتے ہیں ۔ مرکزی و صوبائی دارالحکومتوں میں شام کے بعد ہمارے اکابرین کلبوں اور سفارتخانوں کی محافل میں مصروف رہتے ہیں ۔ تھرکول پروجیکٹ کئی سال سے حکمرانوں کی نااہلی پر نوحہ کناں ہے ، کراچی سرکلرریلوے، لیاری ایکسپریس وے ، ریکوڈیک سونے کی کان، کالا باغ، بھاشا ڈیم ، پانی ، بجلی ، تعمیر وترقی کے منصوبوں کے سروں پر پیر تسمہ پا سوار ہیں جنہوں نے ملک کو اپاہج بناکر دنیا میں غربت کے148ویں نمبر پر دھکیل دیا ہے ۔ پاکستان میں ایک ریلوے لائن ہے جو انگریزوں نے کراچی سے پشاور تک1860میں بنائی تھی ، اس میں ڈیڑھ سوسال میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ کراچی سے پشاور تک ایک شکستہ سڑک ہے جو کسی طرح بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے ۔ موجودہ حکومت نے انقلاب فرانس کا محرک بننے والے ملکہ میری انٹونائٹی کی تقلید کرتے ہوئے لاہور اور پنڈی میںمیٹرو بس چلانے کے بعد کہا کہ ’’ اگر عوام کو روٹی، پانی، بجلی اور صحت میسر نہیں ہے تو و ہ میٹر و بس میں سفر کیا کریں ‘‘ ایک سوارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے سے پاکستان کی سڑکوں کی تعمیر ہوسکتی تھی ۔
سندباد جہازی نے پیر تسمہ پا کو شراب پلا کر جان چھڑا لی تھی مگر آج اس اسلامی ملک میں کروڑوں روپے کی شراب پی کر بھی خواص ، عوام کی جاں بخشی نہیں کرتے اور اربوں روپے کمانے کے باوجود سیاستدانوں اور افسران کی شکم سیری نہیں ہوتی ۔ مغلیہ دور میں شہنشاہ جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان میں تجارت کی اجازت دی مگر اس نے سوسال بعد پورے برصغیرپر قبضہ کرکے اسے اپنا غلام بنالیا ۔ ہمارے قائدین نے صدیوں سے مختلف اقوام کے غلام ، اس خطے کے عوام کو آزادی کے فوراً بعد ہی معاشی غلامی میں جکڑ دیا ہے ۔ آج پاکستان دنیا کے اکثر ممالک اور مالیاتی اداروں کا مقروض بن کر بین الاقوامی اداروں اور بیرونی طاقتوں کی معاشی غلامی اور احکامات کی بجا آوری پر مجبور ہے ، جن میں سرفہرست آئی ایم ایف ، عالمی بینک ، ایشیائی بینک، امریکہ ، برطانیہ، چین ، جاپان ، جرمنی ، سعودی عرب ، عرب امارات اور روس شامل ہیں ۔ آج پاکستان80ارب ڈالر کے بیرونی قرضے اور5000ارب روپے کے ملکی قرضوں میں دبا ہو اہے ۔ ہر شہری سوالاکھ روپے کا مقروض ہے ۔
حکومتی پروپیگنڈے کے بعد اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی تمام بدحالی کا علاج صرف چین کی اقتصادی راہداری میں پوشیدہ ہے جو2030سے قبل کارآمد نہیں ہوسکے گی ۔ شاہراہ قراقرم بیس سال میں مکمل ہوئی ، ہزاروں مزدور اس کی تعمیر میں جاں بحق ہوئے اور آج بھی یہ شاہراہ شکستہ حالت سے دوچار ہے ۔ پاکستان کی ترقی اور خو ش حالی کی امیدیں صرف بیرونی قرضوں اور بیرونی ممالک بشمول چین کے اشتراک سے وابستہ کرنا خام خیالی ہے ۔ پاکستان کی تہذیب و تمدن پر آریں، یونانی، ایرانی ، ترکی ، افغانی، برطانوی اور سکھ اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے ۔ آنے والے دور میں چینی ثقافت کا اضافہ ہوگا ۔ انگریزی اور بھارتی فلم ، ڈرامہ،لٹریچر اور موسیقی نے پاکستان کے سوشل فیبرک کو متاثر کردیا ہے ۔2040میں چین کی آبادی 1.6ارب ہوگی ، انڈیا کی آبادی 1.3ارب اور پاکستان کی آبادی 32 کروڑ ہونے کے بعد چین اور انڈیا کی طاقت اور معیشت ، کثیرآبادی اور ثقافت کی یلغار پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔ ہماری اپنی نہ تو کوئی زبان ہے اور نہ لباس ۔ سرکاری اور عالمی سطح پر انگریزی زبان حاوی ہے ۔ اسی طرح سرکاری سطح پر فوج، پولیس، پی آئی اے اسپتالوں، تعلیمی اداروں میں انگریزی لباس رائج ہے ۔ مشہور فلسفی بر نارڈ شانے نے کہا تھا کہ کوئی ملک اپنی زبان اور ثقافت کوفروغ دئیے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ۔ امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، چین ، جاپان اور روس صرف اپنی زبان رائج کرکے ترقی کررہے ہیں۔
نیب کی مرتب کردہ150افراد کی فہرست 12ارب روپے روز کی کرپشن، حکومتی محکموں اور عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ پیر تسمہ پا ہمیں نہیں چھوڑ رہا ۔ اس سے نجات کے لیے ایک نیا نظام حکومت ، نیا سوشل آرڈر لانا پڑے گا ۔ کون بچائے گا پاکستان ، کیا وہ رہنما پیدا ہوچکا ہے ؟ سزا اور جزا کے نظام پر دنیا قائم ہے ۔ ہمارے ملک کی تمام بیماریوں کا علاج ، غیر پیداواری اخراجات کم کرکے نظام عدل کا نفاذ ہے ۔ قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی ملک کا نظام صحیح راستے پر گامزن ہوسکتا ہے ۔