بلاشبہ مسلم لیگ کا یہ فخر اور اعزاز ہے کہ حضرت قائداعظمؒ کی برسراہی میں اس جماعت نے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن حاصل کیا اور پاکستان کی بانی جماعت قرار پائی اور جب ملک میں’’سیاسی دھما چوکڑی‘‘ شروع ہوئی تو اس جماعت کو متحد اور منظم کرنے کے بجائے اس میں دھڑے بندیاں شروع ہوگئیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اچانک متحرک ہوگئے ہیں، اگرچہ چند روز قبل چوہدری پرویز الٰہی نے ق لیگ کی تنظیم نو کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ملک بھر میں ڈویژنل کنونشن منعقد کرکے پارٹی کو مضبوط بنایا جائے گا لیکن اس ’’عوامی پروگرام ‘‘ کو مؤخر کرکے بڑے چوہدری صاحب پہلے کراچی جا پہنچے جہاں انہوں نے سابق صدرجنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی جو جب عملی سیاست میں آئے اور اپنی پارٹی بنائی تو اس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ رکھاگیا۔ اس کے دوسرے عہدیدار کون ہیں اس کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ چوہدری شجاعت نے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید غوث علی شاہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی، پیر صاحب پگارو سے بھی ملاقات کی اور اول و آخر مقصد مسلم لیگوں کا اتحاد تھا۔ پیر کو لاہور میں سردار ذوالفقار کھوسہ سے ملے اس میٹنگ میں سردار ذوالفقار کھوسہ نے متحدہ مسلم لیگ میں شمولیت کا عندیہ دیا اور ارشاد ہوا کہ مسلم لیگ کسی شخص سے نہیں بلکہ ایک فکر اور نظریہ کا نام ہے۔ اتنی بات تو درست ہے کہ مسلم لیگ ایک فکر اور نظریہ کا نام ہے لیکن اس پر کون سی مسلم لیگ پورا اترتی ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ اس وقت ملک میں نصف درجن کے قریب مسلم لیگیں موجود ہیں اور ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ اصلی اور سچی مسلم لیگ ان ہی کی ہے۔ شیخ رشید جو میاں صاحب کے قریبی ساتھی تھے اور 2002ء میں مسلم لیگی ٹکٹ کے امیدوار بھی تھے ناراض ہوئے تو اپنی علیحدہ عوامی مسلم لیگ بنالی۔ ایسا ہی کچھ اعجاز الحق کے ساتھ ہوا، ان کی مسلم لیگ(ضیاء گروپ) کہلاتی ہے، شیخ رشید اکیلے ہی سب پر بھاری ہیں۔ چینلز کے سہارے اپنی جماعت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔اعجاز الحق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ان کا ایک رکن موجود ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ نے مرحوم پیرصاحب پگاروکے دور میںاہم سیاسی کردار ادا کیا اور یہ ان کی اپنی بھاری بھرکم شخصیت تھی کہ نہ صرف سندھ اسمبلی میں ہی ان کی جماعت تیسری بڑی پارٹی تھی بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود تھی اب جبکہ مسلم لیگ (ن) ان میں سب سے بڑی پارٹی ہے جو اس وقت چاروں صوبوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پنجاب، گلگت بلتستان میں حکمران ہے۔ بلوچستان میں کولیشن پارٹنر ہے، خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن میں ان کے کئی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں اور سندھ میں خاصی فعال ہے۔
اس وقت مسلم لیگوں کا جو اتحاد بننے جارہا ہے وہ مسلم لیگ(ن) کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ وہ مسلم لیگ ن کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے جو سیاسی عینک پہن رکھی ہے اس کے ’’شیشے کالے‘‘ ہیں انہیں اپنے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا۔ ماضی میں تو مسلم لیگ(ق)اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان مفاہمت اور اتحاد کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ مرحوم پیر صاحب پگارو نے بھی ایک بار مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے کوشش کی تھی اس وقت شیخ رشید اور چوہدری شجاعت اس پر راضی بھی ہوگئے تھے اگرچہ حامد ناصر چٹھہ نے جونیجو لیگ کو ختم کردیا تھا اور مسلم لیگ(ق) میں شا مل ہوگئے تھے لیکن وہ آج کل سیاسی طور پر خاموش ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ2013ءکے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف کی یہ خواہش تھی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنائے اور ان کی جانب سے حامد ناصر چٹھہ کانام وزیر اعلیٰ کے لئے تجویز کیا گیا تھا لیکن یہ بات چوہدری برادران کو پسند نہ آئی اور گورنر راج نافذ کرکے بھی مسلم لیگ(ق) اور پیپلز پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی جبکہ سینیٹر اسلام الدین شیخ نے لاہور میں ڈیرے ڈال دئیے تھے اور اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی بڑے سرگرم تھے۔ ماضی میں بہت سی ’’مسلم لیگ‘‘ قائم ہوئیں اور وقت کے ساتھ تحلیل بھی ہوگئیں۔ ایک مسلم لیگ قیوم لیگ بھی تھی جس کے سربراہ خان عبدالقیوم خان اور سیکرٹری جنرل یوسف خٹک تھے اس کا بھٹو دور میں پیپلز پارٹی سے اتحاد ہوا۔ قیوم خان وزیر داخلہ اور یوسف خٹک بھی وفاقی وزیر بن گئے۔ قیوم خان ’’سرحد کے مرد آہن‘‘ ہوا کرتے تھے اور مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ پیر صاحب پگارو کے دور میں مسلم لیگ کو وقت کے آمر نے دو ٹکڑے کیا۔ پہلے محمد حسین چٹھہ صدر بنے لیکن انہیں غلطی کا احساس ہوگیا تو خواجہ خیر الدین کو صدر بنادیا گیا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اس وقت حامد ناصر چٹھہ اور دوسرے چند افراد نے جونیجو صاحب کی رسم قلم کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنے کی تجویز دی اور جب یہ نہ مانی گئی تو مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک مسلم لیگ(ن) کہلائی اور دوسری مسلم لیگ جونیجو گروپ بن گئی۔ ضیاء الحق دور میں بھی جب1986ء میں محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی گئی تو اس وقت بھی ایک مسلم لیگی دھڑا قائم کیا گیا جس کے صدر فدا محمد خان اور سیکرٹری جنرل میاں نواز شریف تھے لیکن ضیاء الحق کے طیارے کے حادثہ کے بعد مسلم لیگوں کا اتحاد ہوگیا۔سردار محمد ایوب کوڑونے بھی آخری دور میں ایوب خان سے پہلے ایک الگ اپنی مسلم لیگ بنالی تھی جبکہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو جونیجو لیگ سے علیحدہ ہوئے تو اپنی جماعت بنائی جس کا نام جناح لیگ تھا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان سے قبل1927ء میں قائد اعظمؒ سے اختلاف کرتے ہوئے سر محمد شفیع نے مسلم لیگ کا ایک گروپ قائم کیا تھا جو تاریخ میں شفیع لیگ کہلاتا ہے۔