اسلام آباد(طارق بٹ) متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم ہونا لندن میں تو ان کے لیے ایک اچھی خبر ہوسکتی ہے تاہم انہیں اس سے پاکستان میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ دوبارہ بحال کرنے میں مدد نہیں ملے گی، پاکستان میں مشکل سے ہی کسی حکومتی، سیاسی اور عوامی حلقے کو کبھی یہ امید رہی ہوگی کہ منی لانڈرنگ کیس میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات کے نتائج’’ جنہیں برطانیہ میں انتہائی سنگین سمجھا جارہاتھا‘‘ مختلف ہونگے اس سے کہ جو اب تک اعلان کیے گئے تھے۔ پاکستان میں ایسا کوئی نہیں تھا جس نے واضح طور پر الطاف حسین کی بریت پر خوشی منائی ہو اور یہ ایسی واضح حقیقت ہے جو ان کی متحدہ قومی موومنٹ میں سیاسی پوزیشن کی عکاس ہے۔بانی ایم کیو ایم کی وقتی خوشی ایک طرف ، ان کی اصل خوشی پارٹی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں ہے کہ جسے انہوں نے بنایا اور طویل عرصے تک اس کی سربراہی کی، پارٹی پر ان کی مضبوط گرفت لندن میں2سےڈھائی دہائیوں تک جلا وطنی کے باوجود کمزور نہیں پڑی تھی تاہم انہیں بڑا دھچکا اس وقت لگاکہ جب عدالت نے ان کے بیانات نشر کرنے اور شائع کرنے پر پابندی عائد کردی تھی اور اس کے بعد 22اگست کی انکی پاکستان مخالف تقریر اونٹ کی کمر توڑنے کے مترادف ثابت ہوئی، کیوں کہ اس بار ان کی اپنی جماعت نے انہیں ترک کردیا تھا اور پھر دن گزرتے یہ شگاف بڑھتا چلا گیا اور فی الحقیقت اب 2 جماعتیں ہیں ایک ایم کیو ایم پاکستان جس کی قیادت فاروق ستار کر رہے ہیں اور دوسری ایم کیو ایم لندن کہ جس کے بانی الطاف حسین ہیں اور ان کے ساتھ دو شہریت رکھنے والے رہنما ہیں جو مایوسی کی حالت میں فاروق ستار سے ایم کیو ایم واپس لینا چاہتے ہیں تاہم اس میں کامیابی سے کوسو دور ہیں، ماضی میں ان رہنمائوں کی جانب سے ایک کے بعد ایک فیصلہ کیا گیا تاہم پاکستان میں کسی نے ان کی بات سنی نہ عمل کیا گیا۔ الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم ہونے پر حکومت بدحواس تھی کیوں کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بانی ایم کیو ایم اور ان کے ساتھیوں کیخلاف ہر طرح کی تحقیقات میں برطانوی حکام کے ساتھ معاونت میں بہت محنت کی تھی۔