23 مئی 2013ء کو جب آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے، چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے ایم او یو پر دستخط ہوئے۔ جون 2013میں وزیراعظم میاں نوازشریف چین کے دورے پر گئے اور سی پیک کے منصوبے کو اپنے نام کرنے اور اسے اپنے سیاسی ، ذاتی اور علاقائی مفاد کی طرف موڑنے کے لئے چینی قیادت کے ساتھ مزید تفصیلات طے کیں ۔اگست2014ء میں جب پی ٹی آئی کی قیادت کنٹینر پر محورقص تھی تو سی پیک کے حوالے سے فیصلہ ساز فورم یعنی جے سی سی کی چار میٹنگز ہوچکی تھیں اور ان منصوبوں کی تفصیلات طے پاچکی تھیں جن پر دستخط کے لئے چینی صدر پاکستان تشریف لارہے تھے لیکن سوا سال کے اس عرصے میں عمران خان صاحب نے سی پیک کا کبھی ذکر کیا اور نہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اس حوالے سے وفاقی حکومت سے صوبے کے حصے یا پھر مغربی روٹ کے حوالے سے کوئی خط و کتابت کی ۔ ان دنوں کالم لکھنے کے علاوہ میں نے سی پیک اور مغربی روٹ کے حوالے سے جیو نیوز پر پروگرام بھی کئے لیکن بے تحاشہ کوششوں کے باوجود عمران خان صاحب یا پرویز خٹک کی زبان پر سی پیک کا لفظ نہیں لاسکا۔ پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو اس وقت میرے ساتھ رابطے میں تھے کو میں نے درجنوں بار بریفنگ دیں اور ان سے درخواست کرتا رہا کہ وہ خان صاحب سے درخواست کریں کہ کنٹینر پر کبھی سی پیک اور روٹ کی تبدیلی کا بھی ذکر کریں لیکن تب ان کو سی پیک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ چینی سفیر نے چوہدری شجاعت حسین اور کئی دوسرے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے درخواست کی کہ وہ خان صاحب اور قادری صاحب کو چینی صدر کے دورے کی خاطر کچھ دنوں کے لئے دھرنے معطل کرنے پر راضی کرلیں لیکن وہ نہ مانے اور الٹا خان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردیا کہ چینی صدر پاکستان آہی نہیں رہے ہیں ، حالانکہ چینی وزارت خارجہ اور سفارت خانہ ان کے دورے کا اعلان بہت پہلے کرچکے تھے ۔ مجبوراً چینی صدر کو اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا۔ اس دورے کا التوا پاکستان کے لئے بڑی سبکی اور چینی سفارت خانے کے لئے بڑی پریشانی کا موجب ہوا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دھرنوں کا ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد بھی لمبے عرصے تک عمران خان صاحب یا خیبر پختونخوا کی حکومت کو سی پیک یاد نہیں آیا۔ اپریل 2015میں جب چینی صدر پاکستان آئے اور سی پیک کے 46ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے تو اس کے بعد بھی خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے کوئی مطالبہ یا اعتراض سامنے نہیں آیا۔ جب 2015ء کے وسط میں اے این پی ، بی این پی (مینگل) اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی نے اس منصوبے میں حکومتی گھپلوں اور روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے سرگرمیاں شروع کردیں تو پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی سی پیک یاد آگیا۔ لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی اپنے صوبے کا کیس صحیح طریقے سے بنا اور نہ پیش کرسکے۔
صوبائی حکومت کے پاس کونسل آف کامن انٹرسٹ ایک بہترین فورم تھا لیکن اس ایشو پر اس نے اجلاس طلب کرنے کے لئے باقاعدہ خط بھی نہیں لکھا۔ نہ تو پنجاب اور سندھ حکومت کی طرز پر سی پیک کے لئے کوئی دفتر بنایا اور نہ صوبائی بیوروکریسی سے مناسب انداز میں کیس تیار کروایا۔ یہ کیس امسال کے وسط میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعظم خان نے اس عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد تیار کیا لیکن وزیراعلیٰ صاحب کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تیار کردہ کیس بھی انہوں نے یا تو پڑھا نہیں یا پھر پڑھ کر سمجھا ہی نہیں۔بلکہ چینی سفیر کے بارے میں وہ جس انداز میں بات کرتے اور جو لہجہ استعمال کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک سفارتی آداب کو بھی نہیں سمجھتے ۔ آج سے صرف بیس روز قبل پشاور میں این ڈی یو کے الومنائی کے زیراہتمام کانفرنس میں جب میں نے یہ دعویٰ کیا کہ مغربی روٹ اب بھی سی پیک کا حصہ نہیں اور یہ کہ صوبائی حکومت اپنا حق لینے میں ناکام ہوئی ہے تو پرویز خٹک صاحب نے اپنے جوابی خطاب میں فرمایا کہ انہوںنے صوبے کے حق سے بھی زیادہ حاصل کیا ہے ۔ یہی بات انہوں نے اگلے روز ایک پشتو ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں بھی دہرائی لیکن جب سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں سینیٹ کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ مغربی روٹ سرے سے سی پیک میں موجود ہی نہیں اور معاملہ پھر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے لگا تو خٹک صاحب نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ چینی سفیر نے ان سے کہا ہے کہ مغربی روٹ سی پیک میں موجود ہی نہیں ۔ حالانکہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں چین کی حکومت یا سفارتخانے کو گھسیٹنا کسی صورت مناسب نہیں۔ چین کی حکومت نے وہی کچھ کیا ہے جو پاکستان کی وفاقی حکومت نے جے سی سی کے فورم پر اسے تجویز کیا ہے ۔ چین کی سفیر نے وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات (میں نے ملاقات میں موجود پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں سے تصدیق کی ہے) نے وہی بات کی تھی جو دوسری اے پی سی کے اختتام پر وفاقی حکومت نے پرویز خٹک وغیرہ کو دھوکہ دے کر اعلامیہ میں کی تھی اور اب چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیانات میں بھی یہی بات دہرائی گئی ہے۔ پہلے اے پی سی کے اختتام پر وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل ہوگا اور دوسری اے پی سی میں بھی زبانی وعدہ تو یہی کیا گیالیکن جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ، اس میں لکھا گیا تھا کہ ایک ہی روٹ ہوگا جس کے متفرق شاخیں ہوں گی ۔ انگریزی کے الفاظ ہیں There will be one root with multiple passages ۔ روٹ کے ساتھ مشرقی یا مغربی نہیں لکھا گیا ۔ چینیوں کو یہ بتایا گیا کہ حکومت نے سیاسی قیادت کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں کی ہے بلکہ ایک ہی روٹ (مشرقی ) ہوگا اور اس کو مختلف سڑکوں کے ذریعے مغربی حصے سے منسلک کردیا جائے گا ۔ دوسری طرف پرویز خٹک وغیرہ سمجھتے رہے کہ روٹ سے مراد ان کا مغربی روٹ ہے۔ ڈی آئی خان وغیرہ کو جو سڑک بنے گی ، وہ روٹ نہیں بلکہ شاخ یا Passage ہے ۔ چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیان میں بھی یہی بات کہی گئی ہے جو کہ میرے اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کے موقف کی تائید اور وفاقی حکومت کے دعوے کی تردید ہے ۔ احسن اقبال سے لے کر وزیراعلیٰ پنجاب تک سب لوگوں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں لیکن چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ وہ سی پیک کا حصہ ہے ۔ افسوس کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا وضاحتی بیان کو سمجھ نہیں سکے اور اس کے بعد چینی سفیر سے متعلق اور بھی شدت کے ساتھ غیرسفارتی زبان استعمال کی ۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے محروم علاقوں کی آئندہ کی محروم نسلیں میاں نوازشریف اور احسن اقبال کے ساتھ ساتھ عمران خان اور پرویز خٹک کو بھی معاف نہیں کریں گی اور تبھی تو خورشید شاہ صاحب کو بھی یہ کہنا پڑرہا ہے کہ عمران خان ، میاں نوازشریف کے سب سے بڑے خیرخواہ ہیں۔
.