بالآخر ایف بی آئی نے مان لیاکہ پاکستان کی بیٹی، عافیہ صدیقی اس کی تحویل میں ہے۔ اس نے تسلیم کرلیا کہ 36سالہ خاتون افغانستان میں ہے اور اس نے اقرار کرلیا کہ وہ زخمی ہے۔ ایف بی آئی نے مزید کہا کہ اسے امریکہ لایا جا رہا ہے اور ایک دوسری اطلاع کے مطابق وہ امریکہ پہنچ چکی ہے تازہ ترین اطلاع کے مطابق اسے نیویارک کی کسی نام نہاد کورٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ عافیہ کی وکیل، ایلن وائٹ فیلڈ شارپ کا کہنا ہے کہ ”عافیہ کے بارے میں لکھے جانے والے آرٹیکلز کے بعد امریکیوں پر شدید دباؤ پڑا۔ میں سمجھتی ہوں کہ امریکیوں نے اچانک عافیہ کو ڈھونڈ نہیں نکالا بلکہ وہ شروع سے ہی ان کے قبضے میں تھی۔“
ریاست ہائے متحدہ امریکہ… 96لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد رقبہ اور تیس کروڑ کی آبادی رکھنے والا ایک امیر کبیر ملک جس کا جی ڈی پی 12کھرب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ ستاون اسلامی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی دو کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جہاں ہزاروں یونیورسٹیاں اور سیکڑوں تھنک ٹینکس ہیں۔ جہاں لوگ ہر روز دو کروڑ بیرل تیل پھونک دیتے ہیں۔ جس کے اسلحہ خانے میں پندرہ ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیاروں اور ہلاکت آفریں میزائلوں کے انبار لگے ہیں، جو ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کا بارود خانہ ایک گھنٹے کے اندر اندر پوری دنیا کو بھسم کرسکتا ہے جو عراق و افغانستان کی حیا باختہ جنگوں پر بیس ارب ڈالر ماہانہ خرچ کررہا ہے اور جو پوری دنیا کی آقائی کا دم بھرتا ہے، اس کا عالم یہ ہے کہ دھان پان سی ایک گڑیا جیسی لڑکی سے خوفزدہ ہے جس نے ساری زندگی پستول تک نہیں اٹھایا اور جو کسی چڑیا کو شکار کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتی۔
یہ بات ناقابل تردید حقیقت کا درجہ حاصل کرچکی ہے کہ عافیہ، 31مارچ 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت اس وقت اغوا کرلی گئی جب اس کی ٹیکسی گلشن اقبال کے سفاری پارک کے سامنے والے پٹرول پمپ کے قریب تھی۔ اگلے ہی دن کراچی کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں پوری تفصیل بیان کردی گئی۔ وہ دن اور آج کا دن کوئی نہیں بتا رہا کہ پانچ برس تک اسے کہاں رکھا گیا اور اس پر کیا بیتی؟ اس کے معصوم بچے کہاں گئے؟ اگر اسے پاکستانی ایجنسیوں نے گرفتار کیا تو وہ امریکیوں کے ہتھے کیسے چڑھ گئی؟ اس نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہیں سکونت بھی اختیار کرلی لیکن وہ امریکی شہری نہیں تھی۔ اس نے صرف پاکستانی شہریت کو ہی اپنی پہچان بنایا۔ وہ کون ہیں جنہوں نے ایک پاکستانی شہری خاتون کو امریکی سفاکوں کے چنگل میں دے دیا؟ صدر مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکہ کے حوالے کئے گئے سیکڑوں افراد کے عوض ”ہم“ نے لاکھوں ڈالر وصول کئے۔ اردو ترجمے ”سب سے پہلے پاکستان“ سے اس انکشاف کو حذف کردیا گیا کیونکہ امریکیوں نے اسے پسند نہ کیا۔ کیا عافیہ بھی بیچ دی گئی؟ جانے وہ کم نصیب کون ہیں جن کے حصے میں عافیہ کے عوض ملنے والے مٹھی بھر ڈالروں کا ”توشہٴ جہنم“ آیا؟
عافیہ کو لاپتہ ہوئے پانچ سال چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران پاکستان سے کوئی توانا آواز نہ اٹھی۔ نہ انسانی حقوق کی ان فتنہ ساماں تنظیموں نے لب کشائی کی جو مختاراں مائی کے لئے قیامت بپا کئے رکھتی تھیں اور نہ حقوق نسواں کی ان این جی اوز کو خبر ہوئی جو ”حدود آرڈی ننس“ کے خاتمے کے لئے آفت کا پرکالہ بنی ہوئی تھیں۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ عافیہ اس وقت لاپتہ ہوئی جب ملک میں نام نہاد جمہوری حکومت قائم تھی لیکن نہ مسلم لیگ (ق) کے کان پر جوں رینگی نہ اپوزیشن کا تمغہٴ اعزاز اپنے سینے پر سجانے والی اس ایم ایم اے نے انگڑائی لی جو طالبان کی خون آلود قبائیں اور امریکہ دشمنی کے پھریرے لہراتی ہوئی ایوانوں میں پہنچی تھی۔ پرویز مشرف سینہ پھلا کر انتہائی فخر اور بڑائی کے ساتھ اپنی محکوم قوم کو بتاتے ہیں…”میں جب چاہوں فون اٹھا کر صدر بش یا کسی بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار سے بات کرسکتا ہوں“ اللہ کرے اس جہان فانی سے رخصت ہونے سے قبل، کسی لمحے ان پر یہ راز کھل جائے کہ ”انہیں یہ مقام بلند“ اپنی کون سی خدمات جلیلہ کے عوض حاصل ہوا۔ اگر امریکیوں سے ان کے قریبی تعلق اور راز و نیاز کا یہی عالم ہے تو کیا انہوں نے کبھی امریکیوں سے پوچھا کہ ”میری ایک بیٹی آپ لوگوں کے پاس ہے،اسے چھوڑ دیں۔“ انہوں نے امریکہ کے ان گنت دورے کئے۔ صدر بش سے ان کی لاتعداد ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ اتنا ہی کہہ دیتے کہ ہمیں دی جانے والی خیرات سے کچھ ڈالر کاٹ لو لیکن ہماری بیٹی ہمیں دے دو۔ صدر بش نہ سہی، کیا ڈک چینی ،کولن پاؤل، رچرڈ آرمیٹج، کنڈولیزا رائس، نیگرو پونٹے یا رچرڈ باؤچر میں سے کسی کو بھی انہوں یاد دلایا کہ عافیہ صدیقی نامی ایک معصوم سی بچی تمہارے کسی عقوبت خانے میں گل سڑ رہی ہے، اسے چھوڑ دو۔
ریاست کی ذمہ داری کیا ہے؟ شہریوں کی عزت، آبرو، جان اور مال کا تحفظ، دفتر خارجہ نے آج تک یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟ امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر کیا کرتے رہے؟ جمالی، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز میں سے کسی نے بھی اس مسئلے کو کیوں نہ اٹھایا؟ میڈیا پوری توانائی کے ساتھ اس ایشو سے انصاف کیوں نہ کرسکا؟ دانشور کیوں اپنی چونچیں اپنے پروں تلے دابے بیٹھے ہیں اور واعظان کرام کی زبانوں کو کیوں لونی لگ گئی ہے؟
نام نہاد جنگ دہشت گردی کے آٹھ سالہ عہد بے ننگ و نام میں ”بردہ فروشی“ ریاستی کاروبار بن گئی، چھ سو سے زائد افراد ایسے بھی تھے جنہیں اٹھا لیا اور غائب کردیا گیا۔ ان میں سے ایک کا نام مسعود جنجوعہ ہے جسے 30جولائی 2005ء کو اغوا کیا گیا اور آج تین سال گزر جانے کے بعد بھی کچھ بتایا نہیں جا رہا۔ مسعود کی جواں ہمت اہلیہ، آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے خاوند کی تلاش کو قومی تحریک میں بدل دیا اور جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے گم شدگان کا سویو موٹو نوٹس لیا۔ آمنہ کی پٹیشن بھی اس میں شامل کرلی گئی۔ جسٹس چوہدری کی مساعی سے ڈیڑھ سو لاپتہ افراد کا سراغ لگالیا گیا اور وہ رہا ہو کر گھروں کو آگئے۔ لاپتہ افراد کے مقدمے کی آخری سماعت یکم نومبر 2007ء کو ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے 14نومبر کو اگلی تاریخ سماعت مقرر کی۔ اس دن ایک رہا شدہ قیدی عمران منیر نے گواہی دینا تھی کہ ”اس نے مسعود جنجوعہ کو کس عقوبت گاہ میں دیکھا تھا لیکن 3نومبر کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ساٹھ دیگر جج صاحبان کے ہمراہ فارغ کردیا گیا۔ اس بات کو 9ماہ 4دن گزر چکے ہیں، ایک بھی پیشی نہیں پڑی، قصہ ہی ختم ہوگیا۔ 380 کے لگ بھگ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ سیف اللہ پراچہ کو 2003ء میں ٹریپ کرکے بنکاک بلایا گیا جہاں سے ایف بی آئی اسے اٹھا لے گئی اور گوانتا ناموبے پہنچا دیا۔ ماجد خان 5مارچ 2003ء کو اپنے بھائی، بھابھی اور تین ماہ کی معصوم بچی سمیت اٹھا لیا گیا۔ بھائی، بھابھی اور بچی تو اگلے دن گھر لوٹ آئے لیکن ساڑھے تین برس تک ماجد خان کا کچھ پتہ نہ چلا۔ پھر خبر آگئی کہ وہ گوانتا ناموبے کے پنجرے میں بند ہے۔ رحیم غلام ربانی اور احمد غلام ربانی دو بھائیوں کو کراچی سے اٹھا لیا گیا۔ آج دونوں گوانتا نامو کیمپ میں سڑ رہے ہیں۔ علی بن عبدالعزیز اور عمار البلوچی بھی پاکستانی ہیں جنہیں پاکستان ہی سے پکڑا گیا لیکن وہ بھی گوانتا نامو کیمپ میں پڑے ہیں۔ کوئی بتانے والا ہے کہ انہیں کس نے پکڑا اور کس نے کتنے ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھوں بیچ دیا؟
ان حکمرانوں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنی ایک ایک سانس امریکیوں کے ہاتھوں رہن رکھ چھوڑی ہے۔ جنہیں وائٹ ہاؤس کی دہلیز کی مٹی، خاک مدینہ و نجف سے بھی زیادہ عزیز ہے لیکن کیا سولہ کروڑ انسان بھی پتھر ہوگئے؟ اقبال نے کہا تھا۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کیا راکھ کے اس ڈھیر میں کوئی چنگاری باقی نہیں رہی؟
عافیہ، عصمت صدیقی کی نہیں، ہماری بیٹی بھی ہے۔ وہ فوزیہ کی نہیں، کروڑوں پاکستانیوں کی بہن بھی ہے۔ وہ محض ایک لڑکی نہیں، ”پاکستان“ ہے، ”پاکستانیت“ ہے کیا ہے کوئی جو 14/اگست کی تیاریوں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اس پاکستان، اس پاکستانیت کی عصمت و آبرو کے لئے آواز اٹھائے؟