• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی ڈھائی کروڑ سے زیادہ کی آبادی کا شہر ہے۔ یہ منی پاکستان ہے لیکن یہ شہر اب تیزی سے ناقابل انتظام ہوتا جارہا ہے۔ شہری سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کراچی سنگین مسائل کا شکار ہو گیا ہے ۔ بہت بڑی آبادی کو ضرورت کے مطابق پانی میسر نہیں ہے ۔ بجلی کی اوور بلنگ ، طویل لوڈشیڈنگ اور بریک ڈاؤن کے باعث لوگوں میں اشتعال کا لاوا پک چکا ہے ۔ صفائی اور ستھرائی کا یہاں تصور ختم ہو چکا ہے ۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور گٹر ابل رہے ہیں ۔ سڑکیں اور انفرا اسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہیں ۔ سرکاری سطح پر ہاؤسنگ کے شعبے میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ پرائیویٹ بلڈرز لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ بلند عمارتوں کی تعمیر نے نہ صرف انفرا اسٹرکچر پر تباہ کن بوجھ ڈالا ہے بلکہ شہر کا حسن بھی ماند پڑچکا ہے اور خوفناک ماحولیاتی اثرات کا لوگوں کو آگے جا کر خمیازہ بھی بھگتنا ہو گا ۔ دہشت گردی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود بے گناہ لوگوں کا قتل عام بھی جاری ہے۔ کچھ عرصے کے لئے خوف کم ہوا تھا لیکن اب دوبارہ یہ خوف جنم لے رہا ہے ۔ سٹہ بازوں نے رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے ۔ متوسط اور کم آمدنی والے طبقات کے لئے اس شہر میں ایک کمرے والا گھر بنانا بھی آسان نہیں رہا ہے۔ کسی منصوبہ بندی اور ماسٹر پلان کے بغیر یہ شہر بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کے بارے میں سوچنے والا یا اسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے ۔
دیگر سنگین مسائل کے ساتھ ساتھ اس شہر کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ دنیا کی کسی بھی میگا سٹی میں ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی اس قدر خطرناک صورتحال نہیں ہوگی، جو کراچی میں ہے۔ چنگ چی موٹر سائیکل رکشوں اور 9 سیٹر سی این جی رکشوں پر پابندی سے کراچی کے عوام کی اکثریت انتہائی پریشان ہے۔ اس پریشانی کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جن کی اپنی گاڑیاں ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے چنگ چی اور سی این جی رکشوں پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ دونوں کراچی کے عوام کے لئے سستی اور تیز تر سواریاں تھیں اور ان کی وجہ سے کراچی کے ہر علاقے میں سفر آسان تھا۔ مذکورہ دونوں قسم کے رکشوں پر پابندی ہے۔ شہری پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ کوئی متبادل ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ کراچی میں اس وقت جو بسیں اور منی بسیں چل رہی ہیں، وہ شہر کی ضرورتوں کو پورا نہیںکر سکتیں۔ بس اسٹاپ پر بسوں کے انتظار میں لوگوں کو گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ خواتین، طلباء و طالبات، بوڑھے اور بیمار لوگ سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ بچے اسکول، کالج اور ٹیوشن سینٹرز نہیں جاسکتے۔ ملازمت پیشہ افراد اور مزدور اپنے کام کی جگہوں پر نہیں پہنچ سکتے۔ عام لوگوں کی پہنچ میں نہیں ہے کہ وہ ٹیکسی یا رکشہ میں سفر کرسکیں۔
اس معاملے کا ایک اور سنگین اور دل دکھانے والا پہلو یہ ہے کہ چنگ چی اور 9 سیٹرز سی این جی رکشوں کے بند ہونے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ان رکشوں کی تعداد 60 ہزار سے زائد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 60 ہزار افراد فوری طور پر بیروزگار ہو گئے ہیں اور اس طرح 60 ہزار خاندانوں کی روزی اور روٹی کا وسیلہ ختم ہوگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر یہ رکشے خریدے تھے یا قسطوں پر حاصل کئےتھے۔ یہ ان کا کاروبار بھی تھے اور اثاثہ بھی تھے۔ اس تباہی کے اثرات سے وہ کئی سالوں تک نہیں نکل سکیں گے۔ رکشہ چلانے والوں کے علاوہ چنگ چی رکشہ بنانے والے ادارے بھی بند ہو گئے، جن میں مزید ہزاروں افراد کام کرتے تھے، وہ بھی بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ورکشاپس اور اڈوں پر کام کرنے والے ہزاروں افراد بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس طرح چنگ چی موٹر سائیکل اور 9 سیٹرز سی این جی رکشوں کی بندش سے نہ صرف لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے ہیں بلکہ دو کروڑ سے زیادہ آبادی ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث پریشان بھی ہے۔ کسی نے انسانی نقطہ نظر سے اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ نہیں کیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور کچھ دیگر سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی ہے اور چنگ چی رکشوں کی بحالی کے لئےلیگل فورمز پر اقدامات کئے ہیں۔ ان سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اس مسئلے کو اس طرح سمجھا ہے ، جس طرح عوام اس کا ادراک کر رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر تاج حیدر بھی انسانی بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہیں ۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت نے عدالت میں عوامی نقطہ نظر سے اس کیس کو نہیں لڑا ہے ۔ حکومت کی طرف سے یہ اعتراضات پیش کئےگئے کہ چنگ چی اور 9 سیٹرز رکشوں کی رجسٹریشن نہیں ہے اور یہ رکشے تصریحات (Specifications) کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ اعتراضات قابل اعتناء نہیں ہیں۔ رکشوں کی رجسٹریشن بھی کی جاسکتی تھی۔ انہیں تصریحات کے مطابق بنانے کے لئے رکشہ ڈرائیورز یا مالکان کو کچھ ماہ کی مہلت دے دی جاتی۔ اپنا روزگار چلانے کے لئے وہ رکشوں میں تصریحات کے مطابق تبدیلی کرالیتے۔ رکشہ ڈرائیورز کو لائسنس رکھنے کا پابند بھی بنایا جا سکتا تھا۔ حکومت سندھ کے نمائندے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ کے اساتذہ کے ساتھ مل کر رکشوں کی تصریحات کا تعین کر رہے تھے۔ یہ کام جلدمکمل کیا جا سکتا تھا۔ یہ سارے کام اب بھی ہوسکتے ہیں۔ رکشوں پر پابندی سے کروڑوں لوگوں کو ہونے والی پریشانیوں اور لاکھوں لوگوں کی بیروزگاری کے انسانی پہلو کو نظرانداز کیا گیا۔ اب اسی انسانی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان رکشوں کو بحال کیا جائے۔ کراچی کے شہریوں کا یہ مسئلہ اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ٹرانسپورٹ کے ایک حادثے سے کراچی میں جو آگ لگی تھی، وہ ابھی تک نہیں بجھی ہے۔ لوگوں کی فرسٹریشن کو اس حد تک نہ پہنچنے دیا جائے کہ چنگاری کو شعلہ بننے کے حالات پیدا ہو جائیں۔ کراچی کے لوگ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث اس وقت بہت زیادہ پریشان ہیں۔
تازہ ترین