• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر حقیقتاً جہادی تنظیمو ںکو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ کیا حکومت کے روڈ میپ کے مطابق جہادی بھی مرکزی قومی دھارے میں بخوشی آجائیں گے؟‘‘ آج کی نشست میں اس پر بحث کریں گے، لیکن اسے قبل یہ جانیں کہ اسلام میں جہاد کسے کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات کی روشنی میں جو جنگ آسمانی تعلیمات کی بالادستی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ کے لیے ہو وہ جہاد ہے۔ قرآن میں جو جہاد کا حکم ہے وہ آخری آپشن کے طورپر ہے۔ جہاد مقصود بالذات نہیں ہے، بلکہ یہ رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے آپؐ نے 12 سالہ مدت میں سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں مارے جانے والے افراد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ جس جنگ کا مقصد نسل، رنگ، علاقہ، قومیت اور لسانیت کے حوالے سے ایک انسانی گروہ پر دوسرے گروہ کی بالادستی ہو وہ جاہلیت، فساد اور دہشت گردی ہے۔
ایک عرصے سے پورے ملک میں عموماً اور قبائلی علاقوں میں خصوصاًسیکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ رہ رہے ہیں جنہوں نے اَسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑی، چونکہ وہ جب افغانستان آئے تھے تو کشتیاں جلاکر آئے تھے۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف اللہ اور جہاد کی خاطر ہی آئے تھے۔ شہادت کی طلب ان کو یہاں لے آئی تھی۔ انہوں نے یہیں شادیاں کیں۔ گھر آباد کیے اور پُرامن زندگی گذارنے لگے۔ نائن الیون تک تو کچھ نہ ہوا، لیکن اس کے بعد ان بے گناہوں پر قیامت بپا ہوگئی۔ اگر افغان جہاد میں حصہ لینا اب جرم ٹھہرا ہے تو پھر بہت سارے صحافیوں، دانشوروں، علماء، سیاستدانوں کو مار دینا چاہیے۔ جب علماء، صحافی، سیاست دان، وکلا اور کالجوں کے استاذ اپنے سابقہ تعلقات اور کاموں سے ’’توبہ تائب‘‘ ہوکر اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر ان مجاہدین کو بھی معاف کردینا چاہیے۔ اب جبکہ کومبنگ آپریشن ہورہا ہے تو بہت سارے سابق مجاہد جو اپنا گھر بار بسائے پُرامن طریقے سے رہ رہے تھے، وہ پریشان ہوچکے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں؟ ان کو ڈر ہے کہیںہم بھی نہ دھرلئے جائیں۔ اربابِ اقتدار کو ایسے لوگوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ انہیں امان اور تحفظ دینا چاہیے۔ جب پوری دنیا میں صرف انسانیت کے ناطے تحفظ دیا جاتا ہے تو یہ تو ہمارے کلمہ گوبھائی ہیں۔ بمصداق حدیث اور بحکم قرآنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمان ملت واحدہ ہیں۔ انہوں نے تو ہمارے ملک کے تحفظ کے لیے جنگ بھی کی ہے۔ ان کا جوابی تحفظ ہمارا قومی فرض ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ریاست تو ’’ماں‘‘ ہوتی ہے اور ماں اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو بھی کھلے دل سے معاف کردیتی ہے، بے جا ضد نہیں کرتی۔ اس پس منظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عام معافی کا اعلان بھی کرنا چاہیے کہ ان باغیوں، دہشت گردوں، فراریوں اور کالعدم قرار دی گئی تنظیموں میں سے جو بھی توبہ تائب ہوجائے، ہتھیار پھینک دے، حکومتی رٹ کے سامنے سرنگوں ہوجائے، اپنے سابقہ جرائم پر نادم ہوجائے،اسے امن ہے۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنے، اسے یاد کرنے اور انتقام انتقام کے نعرے لگانے سے کبھی ملک وقوم ترقی نہیں کرتے۔ اس کی مثالیں تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔ آغازِ اسلام میں کفار مکہ اور مشرکین نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو بے پناہ تکلیفیں دیں۔ 13 سال بعد جب آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو غلبہ ملا تو انہوں نے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف کردیا۔ کہا گیا جو شخص ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان کے گھر پناہ لے یا پھر اپنے ہی گھر میں پُرامن رہے، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہندہ جس نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا اور وحشی جس نے انہیں قتل کیا تھا جب آپؐ کے پاس آئے تو آپ نے درگزر فرمایا۔ طائف میں جن لوگوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا تھا آپؐ نے ان سے بھی درگزر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد سب بھائی بھائی بن گئے۔ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ سچائی کا پیغام جزیرۃ العرب سے نکل کر اس وقت کی سپر طاقتوں فارس اور روم تک پہنچنے لگا۔ مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ معیشت وتجارت ترقی کرنے لگی۔ غریبوں اور محروموں کے غم دکھ دور ہونے لگے۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ ماضی قریب میںجنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے بھی سب کو معاف کر دیا تھا۔ یہ بھی سیکھنے کی چیز ہے کہ دیگر ممالک نے دہشت گردی پر کس طرح اور کن کن طریقوں سے قابو پایا ہے؟ یہاں پر صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ نائن الیون کے واقعے میں نامزد تقریباً تمام افراد ہی عرب تھے۔ غالب گمان یہی تھا اس سے سعودی عرب کے خاموش معاشرے میں بھونچال آجائے گا، لیکن کیا مجال کہ سعودیہ میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوئی ہو۔ اکا دکا جو کارروائی ہوئی اس میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو 4مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے بعض انجام تک پہنچے۔ کئی توبہ تائب ہوکر اچھے شہری بن گئے۔ کچھ جلاوطن ہوگئے اور کچھ سے معاہدے ہوگئے۔ اس حسنِ تدبیر کے نتیجے میں سعودی عرب ایک بڑی آزمائش سے بچ گیا اور اس وقت امن کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔کومبنگ آپریشن کے تحت پکڑ دھکڑ، گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو اپنے ماضی پر شرمندہ، نادم اور توبہ تائب ہونے والے بھی پریشان ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں؟ در اصل بہت سارے مسائل ہم نے خود اپنے لیے پیدا کیے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کبھی ایک تنظیم کی آبیاری کرتی ہے تو دوسرے وقت میں اپنے ہی پالے ہوئے افراد کی جان کی دشمن ہو جاتی ہے۔ ’’روس امریکا جنگ ‘‘کے دوران ایک حکمران نے دنیا بھر کے مجاہدین کی ہمہ قسم کی سرپرستی کی۔ 30 سال بعد ایک دوسرے حکمران نے ’’طالبان امریکا جنگ ‘‘میں ان سب کو دہشت گرد اور دشمن قرار دیدیاگیا۔ 55 سال پہلے کے حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیری مجاہدین کی حمایت کی تو نائن الیون کے بعد ایک کمانڈو حکمران نے ان سب پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہو گی۔ ’’الیاس کشمیری‘‘ خالصتاً کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہا تھا۔ حکمرانوں سے اچھے تعلقات تھے۔ پرویزمشرف نے جب کشمیر پالیسی پر یوٹرن لیا، تو ان کی تنظیم پر پابندی لگا دی، ان کو گرفتار کیا اور جیل میں تشدد کیا جانے لگا۔ نتیجے میں وہ باغی ہو گیا۔ جیسے کیسے رہا ہوا اور پھر وزیرستان جا کر قومی اداروں پر حملے کرنے لگا، یہاں تک کہ مر گیا۔ سینکڑوں مجاہدیں، دسیوںکمانڈروں اور بیسیوں تنظیموں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اگر ان افراد کے ساتھ افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی جاتی، ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے اور مجاہد کمانڈروں کو گرفتار کرنے کے بجائے قومی دھارے میں شامل کیا جاتا، ان تمام مجاہدین کی فوج میں ایک الگ بٹالین بنا ئی جاتی، فوج میں اہم عہدے دیے جاتے، ان کو عزت دی جاتی، انہیں کسی محفوظ مقام پر تربیت کے لیے رکھ لیتے، ان کی خدمت کے صلے میں ان کو مراعات اور سہولیات دی جاتیں تو یہ سب قومی دھارے میں شامل ہونے کی وجہ سے ’’باغی‘‘ بھی نہ ہوتے، قابو میں بھی رہتے اور ہماری فوجی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا۔ یہ کوئی نئی چیز یا نیا فارمولا نہیںہے۔ دنیا بھر کی افواج میں اسپیشل فورسز، مخصوص نوعیت کی سپاہ، خاص قسم کے لڑاکے اور فائٹر ہوتے ہیں۔ ہماری فوج میں بھی نیم فوجی مجاہد بٹالین پہلے سے موجود تھی۔ اس میں اضافہ کرنے سے کوئی خاص فرق بھی نہ پڑتا، لیکن غیر ملکی ایماء پر ان بیسیوں تنظیموں کو بینڈ کیا گیا، سینکڑوں مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیا گیا، عقوبت خانوں میں تشدد کیا گیا تو انہوں نے رد عمل میں وطن کے خلاف لڑنا شروع کر دیا۔ جب پرویز مشرف نے بدعنوانی، کرپشن، غداری، چوری ڈکیتی اور حرام خوری جیسے قبیح ترین افعال کے مرتکب سینکڑوں ہزاروں افراد کو "NRO" کے ذریعے معاف کردیا تھا تو ان مجاہدین کو بھی معاف کر دینا چاہیے تھا۔ کیا لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کے ساتھ اب بھی ایسا ہی ہوگا؟؟ دوراندیش طبقہ سمجھتا ہے کہ کالعدم قرار دی گئی جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد کو افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے دھیرے دھیرے مرکزی قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ کوئی ایک طبقہ ملک کا ٹھیکیدار نہیں۔ سب مل کر، سب قومی دھارے میں شامل ہو کروطن کو عظیم سے عظیم تر بنائیں۔ ماضی کو بھول کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ یہ سب وہ پہلو ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر اور مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت پہلے بھی رہی ہے لیکن اب سب سے زیادہ ہے۔ اگر ریاست چاہے تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟؟


.
تازہ ترین