میں جیسے ہی والدہ کے کمرے میں داخل ہوا میں نے انہیں اندھیرے میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا میں وہیں بیٹھ گیا اور ان کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگا جب والدہ صاحبہ نے سلام پھیر لیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اندھیرے میں نماز کیوں ادا کر رہی ہیں آپ نے جنریٹر چلوالیا ہوتا والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ میں جب بھی اندھیرے میں نماز پڑھتی ہوں توجامع حفصہ کی معصوم بچیوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں جب جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی بجلی بند کرکے طلبا و طالبات کو کئی دنوں تک اندھیروں میں رکھا گیا جہاں انہوں نے انہی اندھیروں میں اپنی نمازیں ادا کیں۔والدہ کے اس سوال نے مجھے چونکا دیا کہ کبھی تم نے یہ سوچا کہ آج پورا ملک اندھیروں میں کیوں ڈوبا ہوا ہے اور آفتوں کا شکار ہے؟ مجھ سے اس سوال کا کوئی جواب نہ بن پڑا میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے والدہ نے کہا ملک اور بھی آفتوں کا شکار ہوگا اگر ہم نے جامعہ حفصہ میں سیکڑوں معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ نہیں کیا ۔حکمرانوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی بجلی بند کی آج ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، حکمرانوں نے لال مسجد کی بچیوں کی خوراک کی ترسیل روک دی اور ان کا کھانا بند کیا جس کے بعد پورے ملک میں آٹے اور گندم کا بحران پیدا ہوگیا ۔پاکستان جو اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرتا تھا آج ہمیں گندم بیرون ممالک سے برآمد کرنی پڑ رہی ہے۔حکمرانوں نے یزید بن کر لال مسجد کا پانی بند کیا محصور طلبا و طالبات نے تیمم کرکے نمازیں ادا کیں آج ملک پانی کی قلت کا شکار ہے ہم نے ان معصوموں پر بم برسائے آج پورے ملک میں بم پھٹ رہے ہیں۔ اگر ہم نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہونے والی قتل و غارت گری کا ازالہ نہ کیا تو ملک میں اور بھی آفتیں آئیں گی۔
والدہ کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ واقعی یہ سب اتفاق نہیں وہ سیاست دان جو سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے آپریشن کے موقع پر اپنی سیاسی دکان چمکاتے رہے اور آمریت کا ساتھ دیتے رہے عوام نے انہیں مسترد کردیا ۔اعجاز الحق ، شیخ رشید، چوہدری شجاعت جیسے پرویز مشرف کے اہم ستون بری طرح شکست سے دوچار ہوئے اور ان کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز جو جامعہ حفصہ کے سانحے کے وقت انتہائی پرسکون اور اطمینان کیساتھ اپنی فیملی کے ہمراہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں آئس کریم کے مزے اُڑا رہے تھے انہیں ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑااور آج وہ پاکستانی عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں، حال ہی میں اپنے سسر کی موت پر انہیں کندھا دینا نصیب نہ ہوا۔ امریکہ کے کہنے پر صدر مشرف کے حکم سے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود ہزاروں معصوم بچیوں کو فاسفورس بم گرا کر شہید کردیا گیا یہ اپنی رعایا پر ایک آمر کے ظلم کی انتہا تھی، خانہ خدا کی بے حرمتی اور معصوم بچیوں کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسلام آباد میں جہاں لال مسجد کا تباہ شدہ ملبہ پھینکا گیا تھا وہاں کئی روز تک معصوم بچیوں کے جسم کے اعضاء ،بستے ، کتابیں اور قرآن مجید کے اوراق ملتے رہے۔ امریکہ کے اشاروں پر چلنے والے صدر مشرف کا زوال بھی اسی وقت سے شروع ہوا اور ایک سال میں ان کی مقبولیت کا گراف گرتے گرتے اتنا نیچے آگیا کہ آج انہیں مواخذے کا سامنا ہے۔ مواخذے کے لئے جو چارج شیٹ تیار کی گئی ہے اس میں صدر مشرف پر ایک الزام لال مسجد میں ہونے والے قتل عام کا بھی ہے۔کہتے ہیں شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا ۔
صدر مشرف کے مواخذے کے لئے جو چارج شیٹ تیار کی گئی ہے وہ اول لال مسجدآپریشن ، پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض غیر ملک کے حوالے کرنا ، ملک میں غیر ملکی قوتوں کو مداخلت کی اجازت دینا اور عدلیہ کی معزولی جیسے الزامات پر مبنی ہے ۔آج عوام صدر مشرف سے قوم پر ہونے والے ظلموں کا حساب مانگ رہے ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ انہی عوام کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہے۔صدر مشرف کے بارے میں نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔امریکی صحافی ران سسکند نے اپنی کتاب "The Way of World"میں یہ انکشاف کرکے دنیا بھر کے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا کہ صدر مشرف نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بے نظیر بھٹو کے اپنی سلامتی کے سوال پر انہیں کہا کہ تمہاری سلامتی کا انحصار میرے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے۔ ملک کی ایک مقبول لیڈر کو سیکورٹی نہ دیئے جانے کی بنا پر قتل کردیا گیا ۔آصف علی زرداری کے غیر ملکی جریدے کو دیئے گئے انٹرویو میں اس انکشاف نے کہ صدر مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملنے والے لاکھوں ملین ڈالر خوردبرد کیئے، نے صدر مشرف کے اس قول کی قلعی کھول دی کہ وہ ایک ایماندار اور کرپشن سے پاک لیڈر ہیں۔آصف زرداری نے الزام لگایا کہ صدر مشرف نے امریکہ سے سالانہ بنیاد پر ملنے والے ایک ارب ڈالر کی امداد مکمل طور پر پاک فوج تک منتقل نہیں کی۔فوج کو صرف 250سے 300ملین ڈالر ملتے رہے باقی 700ملین ڈالر کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے۔آصف زرداری کی جانب سے لگایا جانے والا یہ الزام بھی چارج شیٹ کا حصہ بن سکتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی ایف بی آئی کے حوالے کرنے کے عوض صدر مشرف کے بیٹے پر بھاری رقم وصول کرنے کا الزام عائد کیا۔ ایک امریکی وکیل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فورسز کے حوالے کرنے کے عوض بھاری رقم حاصل کی گئی۔
گمشدہ افراد کی نمائندہ خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ معصوم پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے عوض صدر مشرف نے بھاری رقوم وصو ل کی ہیں۔ صدر مشرف نے اپنی کتاب میں بھی اس چیز کا اعتراف کیا ہے کہ لوگوں کو امریکیوں کے حوالے کرکے امریکہ سے ان کے سر کی قیمتیں وصول کی ہیں۔
صدر مشرف کے قریبی ساتھی صدر بش بھی ان کو عوام کے غیظ و غضب سے نہیں بچاسکتے اور صدر مشرف کی ٹیلی فون کالز سننے سے کترا رہے ہیں ۔ایسی خبریں بھی ہیں کہ امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ کچھ اس طرح کی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ صدر مشرف مواخذے کی تذلیل سے بچ جائیں اور انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے مگر مشرف کے ساتھی سابق جرنیلوں نے صدر مشرف کے مواخذے کے ساتھ احتساب کا مطالبہ بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ صدر مشرف کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے اور انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے۔امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ اگر مواخذہ کامیاب ہوتا ہے تو وہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ صدر مشرف کو بیرون ملک منتقل ہونے کی اجازت دے کیونکہ صدر مشرف امریکیوں کے بہت سارے رازوں سے واقف ہیں اور وہ ان کے لئے مستقبل میں شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ایسی خبریں بھی ہیں کہ مشرف کو پہلے ترکی بھیجا جائے گا اور بعد میں انہیں امریکہ منتقل کردیا جائے گا۔زیادہ اچھا ہو کہ ایسے موقع پر امریکہ سے مشرف کے بدلے ڈاکٹر عافیہ سمیت گوانتاناموبے جیل میں قید بے گناہ پاکستانی قیدیوں کو رہا کروایا جائے ۔ صدر مشرف کے اندرون اور بیرون ملک تمام اثاثے ضبط کرلیئے جائیں جو انہوں نے سیکڑوں پاکستانیوں کے سر کی قیمتیں امریکہ سے وصول کرکے بنائے ان اثاثوں سے جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور سیکڑوں معصوم طلباء و طالبات جنہیں صدرمشرف کے حکم پر بے دردی سے قتل کردیا گیا ان کے لواحقین کو ان کا معاوضہ ادا کیا جائے ۔ صدر مشرف اپنے گناہوں کی تلافی اسی طرح کرسکتے ہیں ۔صدر مشرف کے کامیاب مواخذے کے بعد ان کے دور آمریت کو پاکستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اپنے عوام کو امریکی درندوں کے ہاتھوں فروخت کرنے والے صدر کا انجام اب قریب ہے اور انشاء اللہ ان کے ساتھیوں کا بھی بہت جلد حساب شروع ہوگا کیوں کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔