ہمارے معاشرے میں جو اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی زوال آیا ہے اس میں ایک نیا کلچر پوری شدت سے سامنے آرہا ہے، وہ ہے ہر سطح پر خوشامدی افراد کی اکثریت اور اس میں تمام طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں، یہ ایک خوفناک صورتحال ہے، سیاسی رہنمائوں کی اس بات پر توجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کی تربیت کس انداز سے کریں تاکہ قوم میں سچ بولنے کی روایت جڑ پکڑ سکے مگر ہر روز جھوٹ خوشامد اور بے ایمانی کا کلچر زور پکڑ رہا ہے اس کا اثر آنے والی نسلوں پر اچھا نہیں پڑ رہا، دنیا ہمیں کیا کہتی ہے اس کی ذمہ داری ان قائدین پر ہے جو ہماری قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔
اب نئی تازہ قیادت جو ہماری رہنمائی کیلئے آرہی ہے اس کے بیانات سے کوئی اچھا تاثر اور صورتحال نہیں دکھائی دے رہی، پہلے زمانے کے سیاسی اکابرین جو زبان استعمال کرتے تھے وہ انتہائی نفیس، انقلاب آور اور صحت مند ہوتی تھی، اب ایک دوسرے پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں جس میں نئی اور نوجوان قیادت پیش پیش ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو ملک سول وار کی طرف چلا جائے گا اور یہ ملک بڑی مشکلوں کے ساتھ دنیا میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔ اندھیروں کی طرف چلا جائے گا، ہمارے دشمن بھی یہی چاہتے ہیں کہ سالہا سال کی خونریز جدوجہد کے بعد عالم اسلام کی اس ایٹمی قوت کے ملک کو دنیا میں ایک دہشت گرد ملک اور بدتہذیب قوم کے طور پر پیش کیا جائے یہ ایک المناک صورتحال ہے تقریروں میں نوجوان لیڈر وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جو قوم کو تصادم کی طرف لے جارہی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو نتیجہ بالکل واضح ہے اس میں تمام طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں جو لوگوں کو خودداری، غیرت اور سچی بات کہنے سے محروم کر دیتی ہے، اس کا اثر نئی نسل پر پڑ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے بڑے دانشوروں، رہنمائوں کو طاقت ور لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بے حساب جھوٹ بولتے دیکھتی ہے ، تو وہ آگے بڑھنے کی بجائے انہیں راستوں پر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں جمہوریت کے نام پر اور عوامی جدوجہد کیلئے جو منظر پیش کئے ہیں ان لوگوں کے سابقہ بیانات دیکھیں، جس کا انہیں علم بھی ہوتا ہے۔ 1985ء سے اب تک صرف وقت اور حکمران تبدیل ہوئے ہیں، بیانات اور باتیں وہی ہیں جو پچھلے بیس سال سے مختلف دور میں پرستان اقتدار دیتے رہے ہیں طاقت ور اور خودغرض لوگ انہی سے خوش رہتے ہیں، جبکہ ان لوگوں کی طرز زندگی اور کرپشن کے معاملات ان کے سامنے ہوتے ہیں، چونکہ یہ لوگ خوشامد اور جی حضوری کے فن سے آشنا ہوتے ہیں، یہ بات پاکستانی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسا کیوں ہے، سب کو معلوم ہے طوفان میں گھرنے والی کشتیوں میں سب سے پہلے یہی لوگ چھلانگ لگاتے ہیں۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں، ہم ترقی یافتہ مضبوط پاکستان اور طاقت ور جمہوریت کے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں، ہم نے اصلی جمہوریت اور صحیح انتخابات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے مختلف صاحبان اقتدارمختلف چہرے بدل کر بہت سے خواب قوم کو دکھاتے رہے مگر نتیجہ مختلف نہ نکلا۔
ہم نے اس ملک میں بہت سی جمہوریتوںکے دور دیکھے ہیں جن میں بنیادی جمہوریت، اصلی جمہوریت اور کنٹرولڈ جمہوریت بھی شامل مگر نتیجہ وہی نکلا کوئی بہتری نظر نہیں آئی، جب اس ملک میں کوئی ایسا واقع ہوتا ہے جس کی اصلیت قوم کو معلوم ہو تو بیانات دینے والوں کی موج ہو جاتی ہے اور اب تو ٹی وی کے آنے سے اور موج ہوگئی ہے، قوم پھر مایوس اور بے زار ہے، جب تک خوشامدی کلچر ختم نہیں ہوتا اور سیاسی جماعتیں اپنے لئے ایماندارانہ کارکنوں کی تربیت نہیں کرتے خوشامدی لوگ اپنی صفوں سے باہر نہیں کرتے اور خوشامدی کلچر ختم نہیں ہوتا، ہم ترقی یافتہ اور طاقت ور پاکستان کے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں، ملکی صورتحال جب بھی الجھی ہے تو قوم کو یہ لگتا ہے کہ شاید اب ہماری قسمت کے دن کھل جائیں گے۔ ایک تازہ بیانات کیلئے لیڈروں کی موج ہوجاتی ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن اوجڑی کیمپ کی رپورٹیں ابھی تک سامنے نہیں آسکیں صرف عوام سے قربانی کا کہا جاتا خود قربانی نہیںدیتے، یہ لوگ معاشرے پر بوجھ ہیں۔
.