عیدالاضحی کے موقع پر منیٰ کے مقدس مقام پر جب حجاج کرام شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم ادا کررہے تھے تو وہاں بھگڈر مچنے کی وجہ سے اب تک کی اطلاع کے مطابق آٹھ سو کے قریب حاجی شہیداور نوسو کے قریب زخمی ہیں جو مکہ جدہ کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ شہید ہونے والوں میں اب تک کی اطلاع کے مطابق 16پاکستانی حاجی شہید ہوئے ہیں جبکہ برطانوی اخبار گارڈین نے گزشتہ روز بغیر کسی تصدیق کے یہ اندوہناک خبر دی ہے کہ اس سانحہ میں236پاکستانی شہید اور300لاپتہ ہیں، اگرچہ وزارت خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفیر نے اس شر انگیز خبر کی تردید کی ہے لیکن اس خبر سے پاکستان میں حاجیوں کے اہل خانہ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور ہر ایک اپنے عزیزوں کی تلاش میں ہیلپ لائن اور دوسرے ذرائع سے تلاش میں مصروف ہے۔ اس سانحہ میں ہر ملک کے حاجی متاثر ہوئے ہیںاور سانحہ میںسابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بھانجے اسد مرتضیٰ گیلانی بھی شہید ہوئے ہیں۔ خادمین حرمین شریفین شاہ سلمان خود جائے حادثہ پر پہنچے اور انکوائری کا حکم دیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس سال 24لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ حج سے قبل حدود کعبہ میں ایک تعمیراتی کرین گر گئی جس سے101عازمین حج اور دوسرے افراد شہید ہوگئے تھے۔ کراچی سے میرے ایک صحافی دوست جو حج کی سعادت حاصل کرنے گئے تھے وہ اس وقت منیٰ میں موجود تھے جب یہ سانحہ وقوعہ پذیر ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے کنکریاں مارنے کے لئے انتہائی اچھا انتظام کیا گیا ہے۔ لوگ ایک طرف سے قطار در قطار آتے ہیں اور اس راستے باہر نکل جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس روز منیٰ میں شدید گرمی تھی اور کچھ لوگ قطار توڑ کر سامنے سے اندر داخل ہوگئے۔ یہ بڑی تعداد میں تھے جس کی وجہ سے نہ صرف قطاریں ٹوٹ گئیں بلکہ بھگڈر مچ گئی جس کے نتیجے میں بہت سے حاجی پیروں تلے روند ے گئے جبکہ دم گھٹنے سے بھی شہادتیں ہوئی ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے نیویارک میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ملاقات کی اور اس سانحہ پر گہرے دکھ و غم کا اظہار کیا۔سعودی وزیر خارجہ نے انہیں بتایا کہ سعودی حکومت نے اس کا فوری طور پر نوٹس لیا ہے اور اس حوالے سے ایسے اقدامات کردیئے گئے ہیں کہ آئندہ اس کا تدارک کیا جاسکے۔
حج مسلمانوں کا ایک ایسا دینی فریضہ ہے جس میں ہر سال لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔1990ء میں سب سے بڑا سانحہ پیش آیا تھا اس وقت میرے بھائی سید حیدر قدوائی بھی عوامی بھگڈر میں کچلے گئے تھے اور ان کی چار پسلیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔اس وقت بھی سعودی حکومت نے کنکریاں مارنے کے لئے فول پروف انتظام کئے تھے اس کے باوجود بعض ممالک کے حجاج کرام اپنی مرضی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے حجاج کرام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ دین کا مقدس فرض ادا کرنے جاتے ہیں جہاں انہیں نہ صرف مثالی دینی اتحاد بلکہ نظم و ضبط کا بھی مظاہر ہ کرنا چاہئے۔ ماضی میں جو واقعات ہوئے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔رواں سال حج کے آغاز میں ہی طوفانی بارش کے باعث عازمین حج ایک بڑے حادثے کا شکار ہوئے جب توسیع کے کام میں مصروف ایک کرین مقام ابراہیم کے قریب عازمین پر آگری جس میں107افراد شہید اور400سے زائد زخمی ہوگئے۔جنوری 2006ءمیں بھی منیٰ میں ر می کے دوران بھگڈر مچنے سے360افراد شہید ہوئے جبکہ12متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ا سی سال ا س واقعہ سے ایک روز قبل مکہ میں حاجیوں کے ایک ہوٹل کی چھت گر گئی جس میں 73افراد شہید اور62زخمی ہوگئے۔یکم فروری2004ء میںحج کے دوران منیٰ میں ہی رمی کے دوران بھگڈر مچنے سے244حاجی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ فروری2003ءمیں بھی جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگڈر مچ جانے سے 1411حاجی جاں بحق ہوئے۔مارچ2001ءمیں بھی منیٰ میں شیطان کو کنکرمارنے کے دوران بھگڈر مچنے سے35حاجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔1998ءمیں بھی منیٰ میں رمی کے لئے جانے والے حاجی ایک پل کو کراس کرتے ہوئے بھگڈر مچ جانے سے بڑی تعداد میں نیچے گر گئے جس سے180شہید ہوگئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔اپریل1997ءمیں حاجیوں کی خیمہ بستی میں آگ لگنے سے 340حاجی شہید جبکہ1500سے زائد زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد ان خیمہ بستیوں میں ایسے خیمے لگائے جانے لگےجو آگ میں محفوظ رہتے ہیں اس لئے اس کے بعد آگ لگنے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔مئی1994ءمیں منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگڈر مچ جانے سے 270حاجی خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ جولائی1990ءمیں منیٰ میں بھگڈر مچ جانے کا سب سے بڑا حادثہ پیش آیا جس میں1426حاجی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ سانحہ میں شہید ہونے والے حاجیوں کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے تھاجبکہ 1975ءمیں گیس سلنڈر پھٹنے سے آتشزدگی کے باعث 200افراد جاں بحق ہوئے تھے۔