• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی غریب قوم کے امیر ترین سیاستدان لگژری ہوٹلوں میں قوم کے غم میں گرفتار ہیں کہ اس قوم کی نیّا کو کیسے پار لگایا جائے اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے مسائل کیسے حل کئے جائیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام ایک وقت کی روٹی کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ ان کے علاقوں کے گلی محلے گندگی اور غلاظت کا شاہکار ہیں۔ پانی نایاب ہے اور ضروریات زندگی کی بہت سی چیزیں کم یاب ہیں۔ اگر ان رہنمائوں کو ان علاقوں میں نظر بند کر دیا جائے تو ان کو پتہ لگے گا کہ ’’بلیک ہول‘‘ کیا ہوتا تھا اور ہمارے بزرگوں نے کس طرح کی قربانیاں دیں اور ان کیلئےیہ جنت ارضی (وطن) حاصل کی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ٹھاٹ باٹ رکھنے والے قائدین کو ان تکالیف کا رتی بھر علم نہیں جو اس جفا کش قوم نے اس پاک سر زمین کے لئے برداشت کیں اور اپنے وقت کی دو بڑی قوتوں انگریز اور ہندوئوں سے مقابلہ کر کے یہ گلشن ہمیں فراہم کیا، یہ شاہانہ طرز زندگی انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ پرتعیش جگہوں میں قیام کریں اور انواع اقسام کے دستر خوانوں پر بیٹھ کر ہمارے غم کو اور ہمارے بچوں کی غربت کو مذاق کی شکل میں سیاست کا عنوان بنائیں۔غریب عوام کی خواہش تو یہ تھی کہ امیر ترین سیاست دان ہمارے چوک یادگار، موچی دروازہ، آرام باغ اور لیاقت چوک میں بیٹھ کر ہمارے مسائل پر توجہ دیتے۔ تاکہ عوام جانتے کے ہماری لیڈر شپ ہمارے غم میں تڑپ رہی ہے۔ مہنگے ہوٹلوں میں بیٹھ کو ہمارے مسائل پر غور کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ
رنج لیڈرکو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والے غریب کارکنوں کا خون اتنا سستا کیوں ہےکیاان کے تمام مسائل ان ہی ہوٹلوں میں زیر بحث آسکتے ہیں۔ موچی دروازہ، چوک یادگار، آرام باغ اور لیاقت ہائوس کوئٹہ جیسی عوامی جگہوںپر زیر بحث کیوں نہیں آسکتے۔ جو صورتحال ہمارے رہنمائوں کی ہے اس نے عوام کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستانی قوم اب کسی لگژری پولیٹیکس کرنیوالے لوگوں کیلئے قربانیاں نہیں دے گی۔ عوام کہتے ہیں کہ جب ہمارے رہنمائوں کو ہمارے دکھوں کا علم نہیں۔ ہمارے گندے محلے غیر شفاف پانی، ٹوٹی سڑکیں، شکستہ اسکول، دوائوں اور ڈاکٹروں کے بغیراسپتال ہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ان امیر ترین سیاستدانوں کیلئے ہم قربانیاں کیوں دیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عوام بددیانت رہنمائوں کا احتساب کرینگے۔ پاکستان میں ایماندار لوگوں کا جینا مشکل ہو چکا ہے اور ہمارے رہنما عیش کررہے ہیں۔ کیا مائوزے تنگ ڈاکٹر مصدق، امام خمینی، قائد اعظم محمد علی جناح اور نیلسن منڈیلا نے اپنے غریب عوام کے ساتھ مل کر جدوجہد نہیں کی اور ان کی قومیں آج بھی ان کو اپنا ہیرو مانتی ہیں۔ میں کس کس کا ذکر کروں بہت سے ایسے ایشیائی لیڈر ہیں جو سخت ترین حالات میں اپنے عوام کے درمیان رہے اور صعوبتیں برداشت کیں۔ ہمارے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین پاکستان نے مشکلات کا مقابلہ اپنے عوام کے درمیان رہ کر نہیں کیا۔ میں دیانتداری سے یہ کہتا ہوں کہ عوام کے درمیان رہنے والی لیڈر شپ ہی عوام کے حوصلے بڑھاتی ہے اور انقلاب کی تکمیل اور قوموں کو سروخرو کرتی ہے۔ میں کسی خاص مکتبہ فکر کی قیادت کا ذکر نہیں کررہا ہوں مگر ایک بات ضرور کہنی ہے کہ ہماری لیڈر شپ پرتعیش محلوں میں رہ کر کسی بہت بڑے انقلاب کی تکمیل نہیں کرسکتی۔ اسے تمام جدوجہد پاکستانی عوام کے درمیان رہ کر کرنی چاہئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء کار نے اپنی تمام زندگی قوم کے دکھوں اور تکلیفوں کی نذر کی۔ مگر آج جو صورتحال ہے لیڈروں کی اکثریت پر عوام کو اعتماد نہیں ہے۔ ہمارے اکثر رہنما جس طرز کی شاہانہ زندگی گزارتے ہیں وہ کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان اوردیگر ان کے ساتھیوں نے اپنی دولت و جائیداد اس غریب قوم کے اداروں کیلئے وقف کردی تھی۔ قوم چاہتی ہے کہ ان کے رہنما انکے بیچ (درمیان) بیٹھ کر انکے مسائل سنیں اوران کے دکھ درد کو اسی طرح محسوس کریں، جس طرح وہ خود ان حالات سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ صحت کی جملہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ کرپشن عام ہے کوئی ادارہ سیدھا کام نہیں کررہا جب ان کو دیکھنے والی آنکھ ہی ان کا محاسبہ نہیں کررہی تو وہ کیسے سیدھی راہوں پر چل سکتے ہیں۔ میں اکثر پنجاب اور سندھ کے اہم ترین لوگوں سے ملتا رہتا ہوں اور عوامی رہنما خان عبدالقیوم کا ٹریننگ یافتہ ساتھی رہا ہوں جنہوں نے تمام عمر برصغیر کے تمام علاقوں میں سیاست کی ہے جو دیانت و امانت کی ایک زندہ مثال تھی۔ انہوں نے مرتے وقت کوئی بہت بڑا اثاثہ نہیں چھوڑا وہ کسی جاہ وجلال کے بغیر رہتے تھے اور جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور اس وقت کے روسی صدر نے ماسکو میں اپنی تقریر میں کہا کہ ہم مغربی پاکستان کو بھی تقسیم کر دینگے۔ تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ چوک یادگار میں ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے روس کو للکار دیا کہ اس طرح نہیں ہوسکتا اور بھٹو صاحب کے ساتھ یہ سیاستدانوں کے اتحاد کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ عوام اپنے سیاسی لیڈروں سے اس قسم کے اقدامات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی بقاء اورترقی کیلئے باہم مل کر جدوجہد کریں۔ عوام کا جوش وجذبہ مختلف جگہوں میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ قوم متحد ہو کر عساکر پاکستان کی پشت پر ہے اورجوش وجذبے سے معمور ہے اور وقت پڑنے پر اس ملک کیلئے قربانیاں بھی دے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاستدان اپنا قبلہ درست کریں ورنہ جو ہوگا اس کا اندازہ انہیں نہیں۔
تازہ ترین