• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مواخذے و احتساب سے بچنے کے لیے صدر مشرف نے مستعفی ہو کر نہ صرف اچھی روایت قائم کی ہے بلکہ اپنے لیے محفوظ ریٹائرمنٹ کے لیے جواز بھی حاصل کر لیا ہے۔ ویسے بھی اُن کے خلاف ایسا عظیم الشان قومی اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا تھا کہ اُس کے سامنے سرنگوں کرنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار بھی نہ تھا۔ آصف علی زرداری نے بہت خوب پتے کھیلے، سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ اُنہوں نے نہایت چابکدستی اور دانشمندی سے جنرل مشرف کو یکا و تنہا کر دیا۔ اُن کے امریکی سرپرستوں کو دست کشی پہ راضی کیا، افواجِ پاکستان کو ہمنوا بنایا اور عدالتِ عظمیٰ کو اِس بکھیڑے میں کودنے سے باہر رکھا۔ سبکدوش ہونے سے قبل صدر مشرف نے اپنے سابقہ حلیفوں، پیٹی بھائیوں سمیت سبھی کے دروازے کھٹکھٹائے، کسی نے جواب نہ دیا۔ اگر عدالتِ عظمیٰ (جس سے اُنہوں نے رابطہ کیا تھا) بھی آخری وقت میں ساتھ دینے کو تیار ہوتی، تو وہ اچھا بھلا بحران پیدا کر سکتے تھے، لیکن مستعفی ہو کر، گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے میں ہی اُن کی اور قوم کی بھلائی تھی۔ یہ سب کچھ بڑھکوں اور تختہٴ دار پہ چڑھا دینے کی طفلانہ دھمکیوں کے باعث نہیں،آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی اور بردباری سے ممکن ہوا۔ وگرنہ جلتی پہ تیل ڈالنے کو قاف لیگ والوں سمیت کئی اتنت وادی تیار تھے۔صدر مشرف رخصت ہوئے تو چین کی بانسری بجانے کا چھوٹا سا وقفہ بھی نومولود جمہوریہ کی قسمت میں نہ آیا۔ اُن کا چھوڑا ہوا ملبہ اتنا زیادہ ہے کہ اُن کے جانے پر تالیوں کی گونج ابھی مانند بھی نہ پڑی تھی کہ ججوں کی بحالی کا مُدّا اِک زناٹے دار دھمکی کی صورت ایجنڈے پہ آن دھمکا۔ پھر وہی کاؤنٹ ڈاؤن اور وہ بھی 72 گھنٹے کا۔ زرداری صاحب کا موقف تھا کہ جس طرح بغیر کسی خرابی کے اُنہوں نے صدر صاحب کو چلتا کیا، اُنہیں تمام ججوں کو بحال کرنے کا وقت دیا جائے۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں مولانا فضل الرحمان ،اسفند یار ولی کو ڈالا گیا اور 72 گھنٹوں کی مہلت دی گئی۔ گذشتہ رات گئے وزیراعظم ہاؤس میں مولانا فضل الرحمان نے ججوں کی بحالی کے لیے فارمولا جناب آصف زرداری کو پیش کیا جو یہ ہے: قومی اسمبلی قرارداد سے تمام ججوں بشمول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کی قرارداد پاس کرے اور انہیں ایک انتظامی حکم سے بحال کر دیا جائے۔ پارلیمنٹ موجود قانون میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کر دے اور ساتھ ہی چیف جسٹس کی سربراہی میں سینئر ترین ججوں پر مشتمل اِک کمیٹی قانوناً قائم کی جائے جو عدالتِ عظمیٰ کے انتظامی امور اور SuoMoto کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کی اجتماعی صورت پیدا کر دی جائے۔ آمروں کے احتساب کے لیے اور مظلوموں کی دادرسی کے لیے بھی مولانا نے چارٹر آف ڈیماکریسی سے لے کر یہ تجویز دی ہے کہ مشرف سمیت تمام سابقہ فوجی آمروں کے احتساب اور قومی سانحوں کی تحقیق کے لیے سچائی اور مفاہمت کمیشن (Truth and Reconciliation Commission) قائم کر دیا جائے۔ سترہویں و دیگر آمرانہ ترامیم کے لیے ایک آئینی پیکیج پارلیمنٹ میں لایا جائے جس میں عدلیہ کی آزادی اور سستے اور فوری انصاف کے لیے اصلاحات بھی شامل ہوں۔ ہمارے خیال میں مولانا فضل الرحمان کی یہ تجاویز مدبرانہ اور قابلِ عمل ہیں۔ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اتحاد کے تین لیڈروں بشمول میاں نواز شریف نے اعلان کیا کہ ججوں کی بحالی پر قرارداد سوموار کو پیش کردی جائے گی۔ صدر مشرف نے مستعفی ہو کر گیند پھر سے عوامی جمہوری اتحاد کی قیادت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ بھانت بھانت کے مسئلے پھن پھلائے کھڑے ہیں۔ اس سے پہلے کہ جمہوریت سنبھلے، دہشت گردوں نے انتہائی جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کر لی ہے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے بعد واہ میں نہتے شہریوں کو خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔پوری قوم کو متحد ہو کر ان گمراہوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستان کو آج جن مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے اُنکا سامنا قومی جمہوری اتحاد سے ہی ہو سکتا ہے۔ عوامی جمہوری اتحاد اور مخلوط حکومتوں کو برقرار رہنا چاہیے۔ جناب آصف زرداری نے نواز لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کو شریکِ اقتدار کر کے اور مرکز میں اہم وزارتیں نواز لیگ کو دے کر سب جماعتوں کو حصہ دار بنا کر پانچ سالہ شراکتِ اقتدار کے لیے بڑے ایثار اور کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب تک ملک کے گنجلک معاملات کو سلجھانے کے لیے اُنہوں نے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت قائم کی ہے۔ جمہوری قوتوں اور سیاسی قیادت پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اور اُنھیں خود کو نہایت ذمہ دار ثابت کرنا ہے۔ چیلنج بڑے اور اسٹبلشمنٹ ہنوز بہت مضبوط ہے۔ سول ملٹری تعلقات کے ابھی جمہور کے اقتدارِ اعلیٰ کے حق میں بدلنے میں ابھی کافی عرصہ درکار ہے۔ ایسے میں نواز لیگ والوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پانچ سال تک مخلوط حکومت کے تجربے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا پورا پورا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ اُن کی پوری باری بھی آ جائے گی۔ صدر مشرف کو دونوں آپشنز (Options) چاروں اسمبلیوں نے دیئے کہ مستعفی ہو جاؤ اور گھر جاؤ یا پھر خواخذے و احتساب کے لیے قومی اسمبلی تیار ہے۔ اور یہ حکمتِ عملی میاں نواز شریف سمیت سبھی کی تھی جس پر عملدرآمد زرداری صاحب نے کروایا۔ اب جب صدر مشرف مستعفی ہو کر گھر جا چکے تو اُن کے احتساب کا نعرہ کیوں لگایا جا رہا ہے؟ پہلے زرداری صاحب کو معتوب کیا گیا کہ وہ صدر سے ملے ہوئے ہیں۔ جب زرداری صاحب نے مشرف کو فارغ کر کے گھر بھیج دیا، اُس پر سبکی تک محسوس نہ کرتے ہوئے، مشرف کو ٹانگنے کی نعرہ بازی شروع کر دی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ اتنے ہی بڑے پہلوان تھے تو پھر استعفیٰ کا مطالبہ کیوں کروایا گیا جس پر پنجاب اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیوں نے دستخط کیے۔ مشرف کے جانے پر ایک اور واہیات نعرہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اُن کی تمام پالیسیاں اُلٹ دی جائیں، القاعدہ اور طالبان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ نواز لیگ ایک جمہوری اور پاپولر جماعت ہے، اسے ایسے عناصر کے غچے میں نہیں آنا چاہیے۔ صدر مشرف دیگر تمام فوجی آمروں کی طرح آئین شکن اور شخصی فوجی آمریت کا نمونہ تھے۔ لیکن وہ پہلے فوجی آمر تھے جنہوں نے آمریت سے جمہوریت کی طرف (Transition) کا راستہ لیا اور بالآخر جمہور کے مینڈیٹ کے سامنے سر جھکا دیا۔ جہاں اُنھوں نے بہت برے کام کیے، اداروں کو تباہ کیا اور صوبوں کو بیگانہ اور وفاق کو کمزور کیا وہیں اُنہوں نے کچھ اچھے کام بھی کیے۔ جیسے طالبان سے علیحدگی، مخلوط انتخابات، عورتوں کی نمائندگی اور اقلیتوں کو تحفظ۔ اِن اچھے کاموں کا چارٹر آف ڈیموکریسی نے بھی اعتراف کیا ہے جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کے دستخط ہیں۔ آج جو جمہوری تبدیلی آ رہی ہے اُس کا اعزاز محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے تدبر سے مل کر جمہوری راہ پہ واپس لانے کے لیے دُنیا کو قائل کیا۔ مشرف کو گھیرا اور خود اپنی جان دہشت گردوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نثار کر دی۔ محترمہ کا خون تب رنگ لائے گا جب دہشت گردی کا قلع قمع ہوگا، غریبوں کو اُن کا حق ملے گا اور پاکستان ایک حقیقی ترقی پسند جمہوریہ بنے گا۔ جو خود امن سے رہے اور دوسروں کو بھی چین سے رہنے دے۔ رہی صدارت تو یہ اُسی کا حق ہے جس نے مشرف سے چھینی۔ ’جو بڑھ کر خود اُٹھائے ہاتھ میں، مینا اُسی کا ہے۔
تازہ ترین